کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 14
کی جائے ، جس میں اسلامی تعلیمات کو کلی طور پر شامل حال رکھا جائے۔
سب سے پہلے مفرور لڑکیوں کے کورٹ میرج والےنکاح پر پابندی لگائی جائے۔ کیونکہ اسلامی طور پر نہ یہ نکاح ہوا اور نہ ہی اس سے عورت کی عصمت محفوظ ہے۔
یونیورسٹیوں اور دیگر تمام پبلک و ادارتی نظاموں میں مخلوط نظام ختم کیا جائے تاکہ اس اختلاط کی وجہ سے منظر عام پر آنے والے بے شمار جرائم اور عورت کے ساتھ زیادتی بند ہوسکے۔
حکومت عورت کو پروٹیکشن دینے میں اگر مخلص ہے تو فحاشی کے اڈے بند کرے جو سراسر نہ کہ صرف غیر اسلامی بلکہ انسانیت کے بھی خلاف ہیں۔ اور یہ اڈے دور جاہلیت کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
عارضی اور چھپے نکاحوں کی مختلف شکلوں پر قانونی طور پر پابندی لگائی جائے۔
حلالہ پر پابندی لگائی جائے تاکہ مرد کی دی ہوئی طلاق کا خمیازہ عورت کو اپنی عصمت دری کی صورت میں نہ بھگتنا پڑے اور ایک ملعون عمل کی مرتکب نہ ہو۔
ایک مجلس میں ایک سے زائد طلاقیں دینے پر پابندی عائد کی جائے۔ تاکہ سالانہ لاکھوں ہونے والی طلاقوں کا سد باب ہو۔ طلاق کی کمی سے جہاں خاندانی نظام بہتر ہوگا وہاں عورت بھی اپنی گھر کی ہو کررہے گی۔ اور کئی ایک خرابیوں سے محفوظ رہے گی۔ نیز تمام اسباب اور وجوہات جو طلاقوں کا سبب بنتی ہیں ان کا سد باب کیا جائے۔
وہ تمام افراد جن کے عورتوں سے غیر شرعی مراسم قائم ہیں ان کے لئے قانون بنایا جائے کہ وہ کسی قسم کی سرکاری نوکری کے اہل نہ ہوں گے تاکہ غیر شرعی مراسم کے ذریعے سے ہزاروں عورتوں کی عصمت دری نہ کی جائے اور ایسے عیاش قسم کے افراد جب مقتدر عہدوں سے دور رہیں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا عورت کے تحفظ کے بارے میں کامیاب قانون سازی ہوسکے گی۔
فلم انڈسٹری اور ہر پروڈیکشن میں عورت کو ایڈورٹائز منٹ کے لئے استعمال کرنے جیسے گھناؤنے جرم جو نہ جانے کتنی نسلوں کی تباہی اور خرابی کا سبب بنتے ہیں اور عورت اپنی عصمت سے جاتی ہے۔ ایسی چیزوں پر پابندی لگائی جائے۔
وہ عورتیں جو صرف اپنا یا اپنے بچوں کے پیٹ پالنے کے لئے اپنی عصمت کے نذرانے پیش