کتاب: البیان شمارہ 16 - صفحہ 10
کورٹ ،تھانہ، کچہری تک نوبت نہ جائےبلکہ ان کے گھر کے بڑے فرد آپس میں بیٹھ کر صلح کروائیں۔ تاکہ گھر کی بات گھر میں رہ جائے اور ان دونوں کی عادات ،خوبیوں و خامیوں سے واقف ان کے بڑے ان کی احسن انداز میں اصلاح کریں۔ تعجب!! یہ شق اس طور پر بھی بالکل ہی شریعت اسلامیہ کے بالکل برعکس ہےکہ کیونکہ شریعت اسلامیہ کی رو سے مرد عورت سے ناراض کی صورت میں سزا کی خاطر بغیر طلاق کے علیحدگی اختیار کرسکتا ہے جسے شریعت میں ایلاء کہا جاتاہے،خو دنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج سے ایک ماہ کا فرمایاکیا۔[1] جبکہ عورت کو شوہر سےایک رات بھی ناراض رہنے کی اجازت نہیں۔ ایسی عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی [2]اور جو عورت مرد کو ناراضگی کی حالت میں سونے نہ دے بلکہ راضی کرکے چھوڑے اسے جنتی خاتون قرار دیا گیا ۔[3]جو عورت شوہرکے مطالبے پر اس کے قریب نہ جائے ساری رات فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔[4] بلکہ ایک روایت میں ہے کہ جب کوئی شخص اپنی اہلیہ کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو اسے اس کے پاس جانا چاہئے خواہ وہ تنور پر روٹیاں پکا رہی ہو۔ [5]ایک حدیث میں عورتوں کے جہنم میں سب سے زیادہ جانے کی وجہ بیان کی گئی کہ ’’ يَكْفُرْنَ العَشِيرَ‘‘ یعنی شوہر کی نافرمانی کرتی
[1] صحیح بخاری: 1910، 1911، کتاب الصوم ، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم «إذا رأيتم الهلال فصوموا، وإذا رأيتموه فأفطروا» [2] جامع ترمذی: 360، کتاب الصلوۃ، باب ما جاء فيمن أم قوما وهم له كارهون،علامہ البانی اور حافظ زبیر علی زئی رحمھما اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ [3] السلسلۃ الصحیحۃ : 287، 3380، علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شواہد سے مل کر یہ روایت قوی ہوجاتی ہے۔ [4] صحیح بخاری:5193، کتاب النکاح، باب إذا باتت المرأة مهاجرة فراش زوجها [5] جامع ترمذی: 1160، ابواب الرضاع، باب ما جاء في حق الزوج على المرأة، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔