کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 71
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :’’ تین چیزیں ایسی ہیں جن سے کوئی نہیں بچ سکتا:’’ حسد، بدگمانی ، اور بدشگونی ( طیرۃ)اور میں آپ کو وہ اسباب بیان کرتاہوں جو ان سے بچا سکتے ہیں۔ جب حسد کا خیال آئے تو بغض ونفرت نہ کرو ، اگر بدگمانی کا خیال آئے تو ٹوہ میں نہ لگو ، جب بدشگونی کا خیال آئے تو جو کام کرنا چاہتے ہو اسے کر گذرو ‘‘۔ اسے ابن ابی الدنیا نے روایت کیاہے ، سنن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ پہلی امتوں کی بیماری تم میں سرایت کرچکی ہے : حسد ، بغض وعناد ، اور یہ مونڈ دینے والی ہے ، میں یہ نہیں کہتاکہ بال مونڈ دیتی ہے ، لیکن یہ ( بیماری ) دین کو مونڈ ڈالتی ہے ‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں حسد کو بیماری سے تعبیر کیاہے ۔ [1] اب ہم سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کی طرف آتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نظر بد حق ہے ، اس کے ساتھ شیطان اور ابن آدم کا حسد شامل ہوجاتے ہیں‘‘ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’ یہ حدیث بعض لوگوں کی سمجھ میں نہ آسکی وہ کہنے لگے کہ ’’نظر بد اتنی دور سے کیسے کام کرتی ہے کہ متاثرہ شخص کو اتنی دور سے نقصان پہنچا سکے ، اور بہت سے لوگ محض ان کی طرف دیکھنے سے بیمار پڑ جاتے ہیں ،اور ان کی قوت وطاقت جواب دے جاتی ہے ، تویہ سب ان روحوں[2]کی اس تاثیر سے ہوتاہے جو اللہ تعالیٰ نے ان میں پیدا کی ہوتی ہے ، اور اس کے نظر سے گہرے تعلق ہونے کی وجہ سے اس کی نسبت نظر کی طرف کردی گئی ہے ، لہذا نظر کی کوئی تاثیر نہیں بلکہ اصل تاثیر روح کی ہے ، اور جو نظر لگانے والے کی آنکھ سے نکلتاہے وہ معنوی تیر ہے ، اگر وہ اس بدن میں پیوست ہوجائے جس میں کوئی حفاظتی چیز نہیںہوتی تو وہ اس پر اثر انداز ہوجائے گا ، بصورت دیگر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا ۔ بلکہ وہ نظر لگانے والے کی طرف پلٹ جائے گا جیسا کہ حسی تیر
[1] كتاب السلوك لابن تيمیۃ 10/ 126 [2] یعنی شیطانی روحیں ، اور یہی رائے صحیح ہے اور حدیث سے موافق بھی ہے اور تجربہ بھی اس کا گواہ ہے ، نہ کہ اس سے مراد محض انسانی روحیں ہیں ، یہاں ابن حجر کو وہم ہواہے ، تفصیل کیلئے دیکھیں ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب زاد المعاد 4/163میں اس پر تعلیق