کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 56
اور ان کے مختلف طریقہ ہائے علاج کی وجہ سے ہے ۔ یہیں سے ہمارے سامنے بعض معالجین کی ناکامی کی اصل وجہ کھل کر سامنے آجاتی ہےکہ وہ ہر قسم کے امراض وعلامات سے صرف ایک ہی طریقہ ( جو ماردھاڑ کا ہوتاہے ) سے نبٹنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
(3)قرآن ہر چیز کا علاج ہے :
دوا اور علاج میں بنیادی بات یہ ہے کہ وہ قرآن مجید سے ہونا چاہیے ۔ پھر دوسرے نمبر پر مروج داؤں کے ساتھ ۔ ( یہ محض روحانی امراض میں نہیں ) بلکہ جسمانی امراض میں بھی اسی چیز کو ملحوظ خاطر رکھا جائے ، نہ کہ جیسا بعض جاہل معالجین یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی فرد کی بیماری کا تعلق جسمانی عضو سے ہے تو وہ ہسپتالوں سے رجوع کرے ، اور جس کو نفسیاتی مرض لاحق ہے وہ نفسیاتی کلینک اور ماہرین نفسیات سے رجوع کرے ۔ اور اگر کوئی روحانی بیماری میں مبتلا ہے تو اس کا علاج دم ، ادعیہ اور قرآن سے کیا جاتاہے ۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ لوگ اس طرح کی تقسیم کس بنیاد پر کرتے ہیں ؟ جبکہ قرآن دلوں کا علاج اور اس کی دوا ہے ، اور جسموں کی سلامتی اور اس کی شفا ہے ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :{ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ } [الإسراء: 82]
ترجمہ : ’ ’ یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کیلئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے ‘‘۔
یہاں لفظ ِ ’’ شفا ء‘‘ پر غور کریں ، اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ قرآن ’’ دوا ‘‘ ہے ۔ بلکہ یہ کہا کہ یہ ’’شفاء‘‘ ہے ۔ کیونکہ شفا دوا کا ظاہری اور حتمی نتیجہ ہے ۔ جبکہ دوا میں یہ احتمال پایا جاتاہے کہ ہوسکتاہے وہ شفا یاب کرے یا نہ کرے ؟
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ زاد المعاد ‘‘ میں لکھتے ہیں :’’ قرآن مجید ہر قسم کی دلی اور جسمانی، دنیاوی واخروی بیماریوں کا مکمل علاج ہے۔ لیکن ہر کسی کو قرآن سے شفاء حاصل کرنے کی اہلیت اور توفیق نصیب نہیں ہوتی ۔ اگر بیمار شخص اس قرآن سےدوا کا حصول اچھے طریقے سے کرے اور اپنی بیماری پر مرہم مکمل سچائی ، ایمان ، مکمل قبولیت اور اعتقاد کامل وجازم اور شرائط کی تکمیل کے ساتھ رکھے تو اس کا مقابلہ کبھی بھی کوئی بیماری نہیں کرسکتی ۔ اوریہ ہوبھی کیسے سکتاہے کہ بیماریاں رب سماء