کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 45
بیگمات یا این جی اوز ، اسلام کے خاندانی اور تمدنی و معاشرتی مسائل کے بارے میں بات کریں تو سب کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ غلط مسائل مسلم معاشرے میں پھیلائے جا رہے ہیں۔ مگر گھمبیر مسئلہ اس وقت بنتا ہے جب نام نہاد علماء و فاضلین حضرات اپنے علم و فضل کے زعم میں ، عربی لغت کے زور پر اپنی چرب زبانی کی بنیاد پر وہی کام کرتے نظر آتے ہیں جو اہلِ مغرب کو مطلوب ہے تو پھر تلبیسِ ابلیس ہمارے لئے بہت خطرناک بن جاتی ہے۔ تعجب تو اس بات پر ہے کہ یہ روشن خیال حضرات جو حسبنا کتاب اللہ کا دعویٰ رکھتے ہیں ، خود اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قرآن پاک کی تشریح و تفسیر کا حق دینے کو تیار نہیں ۔ ان کو اپنی عربی دانی پر اتنا بھروسہ ہے کہ اسی کی بنیاد پر فرنگیت کو اسلام میں داخل کرتے نظر آتے ہیں ۔ وہ مغربی فکر کو زبردست لفاظی کے ذریعے قرآن و حدیث میں سے کشید کرنے لگ جاتے ہیں ۔وہ تاویل اور اجتہاد کا کلہاڑا ہاتھ میں لے کر عربی گرامر، لغت اور عربی شاعری کی مدد سے عورت کا دائرہ کار وہی متعین کرتے نظر آتے ہیں جو یو این او کے ایجنڈے ، سیڈا (CEDAW) کو مطلوب ہے۔ غرض مصنف نے پرویزی فکر کو آگے بڑھایا اور غامدی فکر کو خوب پروان چڑھایاہے۔ لغات قرآن کے پردے میں شیطان کو کمک بہم پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ یہ مارِ آستین ہیں جو اپنے فساد فکر و نظر سے امّتِ مسلمہ کو نقصان پہنچانے کے لئے پوری طرح کوشاں ہیں ‘‘۔[1] اصلاحی صاحب کا رویّہ ، منکرین حدیث ہی کی ہم نوائی: گذشتہ چند مثالوں سے واضح ہے کہ جو لوگ مغربی تہذیب کو مشرف بہ اسلام کرنا چاہتے ہیں وہ احادیث کو نظر انداز کر کے قرآن کے نام پر اپنا یہ ایجنڈا پورا کر رہے ہیں ۔ اسلامی تہذیب کی تشکیل میں حدیث کا کردار بنیادی ہے۔اس بنیاد کو درمیان سے نکال دیا جائے تو پھر قرآن سے لغت کے ذریعے سے اور باطل تاویلات کے زور پر جو چاہے ثابت کرنا اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا
[1] ہانہ ’’محدث‘‘ لاہور، نومبر 2012ء ، ص 105-112