کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 3
میانہ قد،گندمی رنگت میں سرخی کی جھلک ۔ناک نقشہ خوب صورت ،صاف گو،علم وحلم کا دل پذیر مجموعہ ،مزاج میں اعتدال۔اچھے خطیب اور اچھے مدرس ۔طبیعت میں صالحیت اور حسنات کا غلبہ۔لمبی داڑھی ۔عمدہ خصال اور خوش گفتار ۔شلوار قمیص عام پہناوا ۔ہمارے اس عزیزالقدر دوست کو جو حافظ عبدالحمید ازہر کے نام سے موسوم ہیں،اللہ نے بہت سی خصوصیات سے نوازا ہے۔
والد محترم کا نام حکیم فیض محمد تھا۔اس خاندان کے لوگ ضلع امرتسر کے موضع بھوجیاں کے علمائے کرام سے متاثر تھے،اسی لیے ان کے والد کا نام مولانا فیض محمد بھوجیانی کے نام پر رکھا گیا تھا۔جدِامجد کا اسم گرامی حکیم مولا بخش تھا۔ان کا تعلق ایک گاؤں ’’سُرسنگھ‘‘ سے تھا۔انہیں مقامی مسلمانوں میں احترام کی نظر سے دیکھاجاتاتھا اور سب لوگ ’’میاں جی‘‘ کہتے ہیں۔ایک بزرگ شیخ حبیب اللہ تھے،نیک طینت اور پسندیدہ خصائل کے مالک ۔انہی کی تلقین سے حکیم مولا بخش نے مسلک اہل حدیث قبول کیا۔پھر ان کی عقیدت کا مرکز غزنوی علما ئے کرام اور مولانا نیک محمد قرار پائے۔حکیم مولا بخش کی کوشش سے موضع سرُ سنگھ میں ایک خاصی بڑی مسجد کی تعمیر شروع ہوئی ، لیکن ابھی مسجد مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ملک کی تقسیم کا اعلان ہوگیا اور ان لوگوں کو وہاں سےنکلنا پڑا۔
حافظ عبدالحمید ازہر کے نانا حاجی عبدالکریم تھے۔ ان کا تعلقِ سکونت ایک گاؤں ’’بلیئر‘‘ سے تھا۔یہ گاؤں ضلع لاہور میں تھا۔وہاں سکھوں کی اکثریت تھی۔حاجی عبدالکریم اپنے خاندان کے ساتھ وہاں سے نکلے اور موضع ’’پٹی‘‘ میں آبسے۔یہ خاصا بڑا قصبہ تھا اور ضلع لاہور میں تھا،اس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور مسلمانوں میں بھی اہل حدیث حضرات کی تعداد زیادہ تھی۔لیکن تقسیم ملک کے نتیجے میں اس قصبے کو ضلع لاہور کی حدود سے نکال کر ضلع امرتسر میں شامل کردیاگیا اور وہ ہندوستان کے حصے میں آیا۔تقسیم ملک سے پہلے حافظ عبدالحمیدازہر کے ددھیال وننہیال عزت واحترام کی زندگی بسر کرتے تھے۔ملک تقسیم ہوا تو وہاں سے قصور آگئے اور اس شہر کے کوٹ اعظم خاں میںسکونت پذیر ہوگئے۔یہیں 10۔دسمبر1948ء کوحافظ عبدالحمیدازہر کی ولادت ہوئی۔پاکستان کی پیدائش 14۔اگست 1947ء کوہوئی۔عیسوی تقویم کے مطابق یہ عمر کے اعتبار سے پاکستان سے چاردن کم