کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 20
’’اللہ تعالیٰ کے ہاں شہید کے لئے چھ انعامات ہیں۔1 خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کی بخشش ہو جاتی ہے۔ 2 جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے۔3 عذاب قبر سے محفوظ اور قیامت کے دن کی بھیانک وحشت سے محفوظ کر دیا جاتا ہے۔4 اس کے سر پر ایسے یاقوت سے جڑا ہوا وقار کا تاج رکھا جاتا ہے جو دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سے بہتر ہے۔ 5اس کی بڑی آنکھوں والی بہتّر حوروں سے شادی کر دی جاتی ہے ۔6 ستّر رشتہ داروں کے معاملہ میں اس کی سفارش قبول کی جاتی ہے۔‘‘
سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اشتکت النار إلی ربھا فقالت: رب أکل بعضي بعضا، فأذن لہا بنفسين: نفس في الشتاء ونفس في الصيف، فأشد ما تجدون من الحر، وأشد ما تجدون من الزمھرير۔‘‘[1]
’’دوزخ نے اپنے رب سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ میرے ایک حصہ نے دوسرے حصہ کو کھالیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی ،ایک سانس سردیوں میں ، دوسرا گرمیوں میں۔ لہذا تم جو گرمی اور سردی کی شدت دیکھتے ہو (وہ انہی سانسوں کا اثر ہے)۔‘‘
سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ایک گڑگراہٹ کی آواز سنائی دی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے ؟ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ھذا حجر رمي بہ في النار منذ سبعين خريفا، فھو يھوي في النار الآن، حتی انتھی إلی قعرھا‘‘[2]
’’ یہ ایک پتھر ہے جو کہ ستر سال پہلے دوزخ میں پھینکا گیا تھا اور وہ لگاتار دوزخ میں گر رہا تھا
[1] صحیح بخاری: 3260،کتاب بدء الخلق ،باب صفة النار، وأنها مخلوقة۔صحیح مسلم:617،کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ۔
[2] صحیح مسلم: 2844، صحیح ابن حبان: 7469، مسند ابی یعلی: 6179، نیز دیکھئے : سلسلۃ الصحیحۃ : حدیث نمبر 1612 اور 2165