کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 18
طرف رجوع کرتے ہیں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے جاری شدہ فرامین بھی اس حقیقت کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔ احادیث سے دلائل: واضح رہے قرآن مجید کی طرح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت بھی تشریعی ہے، جن لوگوں نے صرف قرآن کافی ہے کا نعرہ لگایا درحقیقت وہ ہوس پرست لوگ ہیں، اور قرآن کافی ہے کا نعرہ صرف دعوی کی حد تک ہے، اور حقیقت سے کوسوں دور ہے،اس آڑ میں صرف اپنی عقلانیت کو فروغ دے رہے ہیں اور مسلمانوں کے کئی ایک مسلمہ عقائد ان کی تشکیکات سے محفوظ نہ رہ پائے۔ اعاذنا اللہ منھم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی حیثیت تشریعی ہے، خواہ عقائد ہوں یا فروعاتِ فقھیۃ، اسی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے ہم اپنے مدعا کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے بھی ثابت کرتے ہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انصار کے ایک بچہ کا جنازہ پڑھانے کے لئے کہا گیا تو میں نے عرض کیا: ’’ يا رسول اللہ، طوبی لہذا، عصفور من عصافير الجنۃ، لم يعمل السوء، ولم يدرکہ‘‘ اے اللہ کے رسول اس جنت کی چڑیوں میں سے چڑیا کے لئے خوشی ہو اس نے نہ کوئی گناہ کیا اور نہ ہی گناہ کرنے کے زمانے تک پہنچا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ ! اس کے علاوہ بھی کچھ ہوگا ۔ ’’إن اللہ خلق للجنۃ أھلا، خلقھم لہا وھم في أصلاب آبائھم، وخلق للنار أھلا، خلقھم لہا وھم في أصلاب آبائھم‘‘ ’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کو جنت کا اہل بنایا اور انہیں پیدا ہی جنت کے لئے کیا ہے اس حال میں کہ وہ اپنے آباؤو اجداد کی پشتوں میں تھے اور بعض کو جہنم کا اہل بنایا اور انہیں پیدا ہی جہنم کے لئے کیا ہے،جبکہ وہ ابھی اپنے آباؤو اجداد کی پشتوں میں تھے۔‘‘[1] سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم
[1] صحیح مسلم : 2662، سنن ابی داؤد: 4713، سنن النسائی : 1947، سنن ابن ماجۃ: 82