کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 16
کو فوقیت دے رکھی ہے۔ اب آئیے جانتے ہیں کہ ان باطل نظریات کے مد مقابل سلف صالحین کا مؤقف کیا ہے؟۔ اور ان کے ادلہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ جنت و جہنم کی تخلیق کے حوالے سے سلف صالحین کا مؤقف: جنت و جہنم کی تخلیق ہوچکی ہے اور یہ اب موجود ہیں ۔البتہ اس کی تخلیق میں مزید اضافہ بھی ہوتا جائےگا۔ قرآن مجید سے دلائل : پہلی دلیل: اللہ تبارک و تعالیٰ نے کئی مقامات پر جنت و جہنم کی تخلیق کے حوالے سے ماضی کا صیغہ استعمال کیااورفعل ماضی(گزشتہ زمانے میں) کسی کام کے ہوجانے کو بیان کرتا ہے۔ جہنم کے حوالے سے فرمایا: [فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِيْنَ ] ’’ اگر تم یہ (قرآن جیسی سورت کا چیلنج پورا) نہ کرسکے اور ہر گز تم نہیں کرسکتے تو پھر جہنم کی آگ سے ڈرو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں، جوکہ کفار کے لئے تیار کی گئی ہے۔ ‘‘[البقرۃ : 24] ایک اور مقام پر فرمایا: [وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْٓ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِيْنَ ١٣١؁ۚ][آل عمران: 131] ’’ اس آگ سے ڈرو جو کفار کے لئے تیار کی گئی ہے۔ ‘‘ [اِنَّ جَہَنَّمَ کَانَتْ مِرْصَادًا 21؀۽ لِّلطَّاغِيْنَ مَاٰ بًا 22؀ۙ] [النباء: 21 - 22] ’’جہنم یقینا ایک گھات ہے،جو سرکشوں کا ٹھکانا ہے۔‘‘ جنت کے حوالے سے فرمایا: [ وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ ١٣٣؁ۙ] ’’اور اپنے پروردگار کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑ کر چلو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ ان متقین لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘ [آل عمران: 133]