کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 15
ذکر مخلوط طور پر کیاگیا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ جن نعمائے جنت کی تفصیل قرآن میں آئی ہے ، جنتِ ارضی میں ان سے (وہی یا انہی جیسی کیفیت پیدا کرنے والی ) مادی اشیاء مراد ہیں، لیکن جنتِ اخروی کے سلسلہ میں ان کے مجازی معنی لینے چاہئیں۔یعنی سمجھنا یہ چاہئے کہ یہ ایک کیفیت کا نام ہے ، جس کا ہم ، اپنے شعور کی موجودہ سطح پراحساس و ادراک نہیں کرسکتے ، اس لئے اسے تشبیہات واستعارات کی زبان میں بیان کیا گیاہے۔ وہ زندگی ، اس دنیا کی سی مادی زندگی نہیں ہوگی، اس لئے اس سے متعلق تفاصیل کو مادی پیکروں میں نہیں دیکھنا چاہئے، انہیں کیفیات سمجھنا چاہئے۔ (جہنم کی طرح) اُخروی جنت بھی کسی مقام کا نام نہیں، کیفیت کا نام ہے۔ ‘‘[1]
مذکورہ بالا طویل اقتباس سے پرویزکے کئی ایک نظریات واضح ہوتے ہیں۔
جنت محض ایک تمثیل ہے اور یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔
آدم علیہ السلام جس جنت میں تھے اور اخروی جنت دونوں علیحدہ چیزیں ہیں اور یہ کوئی جگہ نہیں بلکہ کیفیات ہیں۔
اس اقتباس میں یہ بھی واضح ہے کہ پرویز صاحب ارتقائی نظریہ کے بھی حامل تھے۔
پرویزصاحب اپنی کتاب نظام ربوبیت میں لکھتے ہیں:
’’جنت کی آسائشیں اور زیبائشیں وہاں کی فراوانیاں اور خوشحالیاں اس دنیا کی زندگی میں حاصل ہوجاتی ہیں، مرنے کے بعد کی جنت کے سلسلہ میں ان کا بیان تمثیلی ہے۔ وہاں کی آسائشوں کی حقیقت کیاہوگی ، اسے ہم انسانی شعور کی موجودہ سطح پر نہیں سمجھ سکتے ۔ نہ ہی یہ چیز اس وقت ہمارے زیر نظر ہے۔ اس وقت ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ قرآن کی رُو سے جنتی زندگی ، آسائشوں اور خوش حالیوں کی زندگی ہے اور اس دنیا میں بھی حاصل ہوسکتی ہے اور اگلی دنیا میں بھی۔ ‘‘[2]
گویا کہ دنیا میں بھی یہ کیفیت حاصل ہوسکتی ہے۔
بہرحال معتزلہ کی فکر و سوچ کے لوگ اب بھی موجود ہیں جنہوں نےشرعی نصوص پر عقلانیت
[1] جہان فردا: 269، 270
[2] نظامِ ربوبیت:82