کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 130
یہ اخوت ومودّت محض انعام الٰہی ہے: [لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَيْنَہُمْ ] ترجمہ:’’زمین میں جو کچھ ہےآپ اگر سارا کا سارا بھی خرچ کر ڈالتے تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملاسکتے،یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے‘‘۔[سورہ انفال:63] اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرامین عالیشان میں اس پہلو پر زور دیاہے،کبھی یوں فرمایا’’ علیکم بالجماعۃ‘[1]ترجمہ:جماعت کولازم پکڑو، کبھی یوں گویا ہوئے:’’یداللہ علی الجماعۃ‘‘[2]ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔ بلکہ ایک حدیث میں اس شخص کو جو جماعت سے نکل جائے اس کو اس بکری سے تشبیہ دی جو ریوڑ سے الگ تھلگ ہوکر چرتی ہے اور بھیڑیے کےلیے اس کا شکار کرنا نہایت آسان ہوجاتاہے۔[3] بعینہ جب آدمی جماعت سے الگ ہوجاتاہےتووہ فتنوں کا شکارہوجاتاہے۔اس حزبیت کی نحوست نے دورحاضر کے نوجوانوں کو تباہی وبربادی کے دہانےپر لاکھڑا کیاہے،اور کچھ ایسے لوگ جو بظاہر خیرخواہی کا دعوی کرتے ہیںاسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام ہی کے بارے میں ایسی تشریحات کرتے ہیں کہ نوخیز عمر والے نوجوانوں کو گمراہی کے راستےپر لگادیتےہیں ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ پاک کافرمان ہے: [فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِہٖ] ’’پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کےلیے‘‘۔[سورہ آل عمران:7] اور اس حزبیت کے زہر کو امت کے نوجوانوں کے ذہنوں میں انڈیل رہے ہیں جس کانتیجہ ہے کہ ہمارا یہ قابل فخر سرمایہ ان لوگوں کے دامِ تزویر میں پھنس کر انتہاپسندی کی طرف روز افزوں مائل
[1] مسنداحمد:22029،شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن صحیح قراردیاہے،صحیح ترغیب وترہیب1/211،(427)۔ [2] سنن نسائی 4020، شیخ البانی نے اسے صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔ صحیح ترغیب و ترہیب 2131 [3] مسنداحمد:22029،مسند احمد کے محققین نے اسے حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔ مسند احمد358/36