کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 77
صدقۃ الفطر، زکوۃ ،عشر ،رکاز اور علم وراثت کے مستقل نصاب یہ سب کے سب اس فن کے متقاضی ہیں، تویہ کیسے ہوسکتا ہے ،اسلام ان کا حکم تو دے مگر اس کے کامل طور پر ادائیگی کے لئے حساب کتاب (calculation) کی ترغیب نہ دلائے، یہی وجہ ہے کہ ایک جنگ کے موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رائے[1] کے مقابلے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا کہ ان قیدیوں سے فدیہ لے کر اور ان کے پڑھے لکھے لوگ، ہمارے ان پڑھ افراد کو پڑھا ئیں اور پھر انہیں آزاد کردیا جائے۔ بہرحال اس واقعے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس حوالے سے خصوصی شغف رکھنا ثابت ہوا،اور ساتھ یہ بھی واضح ہواکہ اس کے سیکھنے، سکھانے کے لئے کوئی جگہوں کی تقسیم نہیں کی گئی کہ یہاں دینی علم اوروہاںدنیاوی علم ہو۔ (5)وکالت : آج حالت یہ ہے کہ وکالت کے حوالے سے مختلف کالجز اوریونیورسٹیاں قائم ہیں ،اور ان یونیورسٹیز میں جو قوانین پڑھائے جارہے ہیں ،اغیار سے ماخوذ ہیں،اس علم کو بھی مدرسے سے علیحدہ سمجھا جاتا ہے، جس کامطلب بظاہر یہ ہے کہ اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ،جبکہ وکالت اور قضاء کے جو قوانین اور ضابطے اسلام نے مقرر کئے ہیں کسی اور نظام میں یہ امتیاز نظر نہیں آتا، جس کی تفصیل کو کسی اور موقع کے حوالے کئے دیتے ہیں ،یہاں ہم اس جانب توجہ دلارہے ہیں کہ اسلامی ملک میں یہ فیکلٹی(Faculty) تو مدرسے کے حصے میں آنی چاہئے،جہاں بالتفصیل اسلامی نقطۂ نظر سے قضاء پر بات ہوتی ہے، مگر کوئی مدرسہ سے فارغ التحصیل طالب علم اس حیثیت کو پالے یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، بلکہ اسے علیحدہ سے یہ پروفیشنل ڈگری حاصل کرنی پڑے گی ، اور مدرسے کو یہ حیثیت دے دی جائے ، یہ ہمارے معاشرے میں نہیں ہوسکتا۔ میرا اس ذہن کے لوگوں سے سوال ہے کہ تاریخِ اسلام پر نظر ڈالئے کہ کہیں یہ بات موجود ہے کہ فلاں قاضی (جج) فلاں عصری یونیورسٹی سے سرٹیفائیڈ ہے؟کہیں بھی ایسا نہیں ملے گا ،ملے گا تو یہی فلاں قاضی صحابی، فلاں تابعی، اور فلاں قاضی فلاں امام
[1] وہ رائے یہ تھی کہ ہر کافر کو اس کا قریبی رشتہ دار مسلمان قتل کرے،تاکہ یہ جان لیں کہ اسلام کی ہمارے دلوں میں کیا حیثیت ہے۔