کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 75
ہے اور وہ نوح علیہ السلام کی ہے جوکہ نبی بھی تھے اور نبی کی ذمہ داری دینی تربیت اور علم کو عام کرنا ہوتی ہے۔ اورنبی ہونے کے ساتھ ہی وہ ایک ایسی چیز کے مؤجد ہیں کہ ان سے پہلے اس قسم کی ایجاد کا وجود تک نہیں تھا۔اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سےاتنی بڑی کشتی بنائی تھی کہ جو نوح علیہ السلام کی قوم کے کئی افرادبلکہ مختلف مخلوقات کے جوڑے اسی کشتی میں تھے اور یہ کشتی ان سب کے لئے کافی و وافی تھی ۔تصور تو درکنار ، لوگ مذاق اڑاتے تھے، بلکہ قوم نوح کے لوگ مذاق اڑاتے ہوئے کشتی میں پاخانہ کرجاتے، مگر سیدنا نوح علیہ السلام نے کشتی تیار کی اور اتنی بڑی تھی کہ مختلف مخلوقات کے جوڑے اس میں آگئے۔اور مذاق اڑانے والے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق ٹھہرے اور سیدنا نوح علیہ السلام کی کشتی میں سوار ہونے والے اس عذاب سے محفوظ ہوگئے۔ یہاں قابل غو ر بات یہی ہے کہ سیدنا نوح علیہ السلام ایک نبی بھی ہیں اور ایک فن کے ماہر بھی ہیں،سائنسدان بھی ہیں۔اور یہ تو ایک ایسی ایجاد کا تذکرہ ہےجو قرآن مجید سے ثابت ہے،ورنہ مسلمانوں کی ایجادات پر مشتمل کتب منظر عام پر آچکی ہیں ۔ جس سے واضح ہوجاتا ہےکہ مسلمانوں کا اس حوالے سے بڑا حصہ رہا ہے۔ اور دین اسلام نے قطعاً اس تقسیم کی روش اختیار نہیں کی۔اور مختلف علوم و فنون کے حوالے سے مسلمانوں نے جو مہارت حاصل کی اور اس حوالے سے دلچسپی رکھی اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ چنانچہ چند ایک مثالیں درج ذیل ہیں۔ (2)مروجہ زبان کوسیکھنا: آج ترقی پسند لوگ مروجہ زبان انگریزی کو سیکھنے کے بڑے دلدادہ ہیں ، اور انگریزی سیکھنے سکھانے کو اس طرح سے پیش کیا جاتا ہےکہ اس زبان کو مدارس میں نہ پڑھانے کی وجہ سے مدارس پر خوب تنقید کی جاتی ہے، عرض یہ ہےکہ وقت کی مروج زبان کو اس لئے سیکھنا کہ اس کے ذریعے سے دینی و دنیوی فوائد حاصل کئے جاسکیں ،شریعت اسے اچھی نظر ہی سے دیکھتی ہے، اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے اس کی اصل موجود ہے،جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن ثابت کو عبرانی زبان سیکھنے کی ترغیب دلائی اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ جوکہ کاتب وحی بھی ہیں اور اس دور کی معروف زبان کو بھی