کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 73
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں یہ سبق موجود ہے کہ نفاذ حدود میں تقسیم و تفریق کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ دین اس قدر مساوات کے اصولوں پر قائم ہےکہ اس میں کسی بھی قسم کی طبقاتی تقسیم کی کوئی گنجائش نہیں، خواہ وہ لسانی ہو یا کسی اور بنیاد پر۔اسلام کے قوانین ، اصول و ضوابط تمام افراد کے لئے ہیں۔ اور اسی طرح تعلیم کا معاملہ ہے۔ کہ قرآن مجید خود تعلیم کے حصول کی دعوت دیتا ہے، مگر اس کے حصول میں کوئی تقسیم اس طور پر نہیں کرتا کہ کسی خاص طبقہ ،علاقہ ، قوم ، ذات تک اسے محدود کردیا جائے ۔بلکہ اس کی تعلیمات میں بھی عموم ہے یعنی اس کی تعلیمات سب کے لئے ہیں اور ان تعلیمات کے حصول میں بھی عموم ہے جو چاہے سیکھے ،جہاں چاہے سیکھے، اس حوالے سے کسی قسم کی تقسیم و تفریق کا دین اسلام میں تصور تک نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں آج تعلیم کے حوالے سے دو طرز منظر عام پر آچکے ہیں۔ (1) دنیاوی تعلیم(یہ الگ بات ہے کہ امیر و غریب اور سرکاری، غیر سرکاری اور دیگر تقسیمات میں اس نظامِ تعلیم کو بھی بانٹ دیا گیاہے۔) (2) دینی تعلیم (امیر و غریب کی تقسیم میں تو اسے بانٹا نہیں گیا۔البتہ عقائد و نظریات میں اختلاف کی بنیاد پر وجود میں آنے والے مختلف مکاتب فکر کی حیثیت سے اس میں بھی تقسیم ضرور موجود ہے۔) آج لوگ میڈیا پر مختلف قسم کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہیں۔ کبھی نظامِ تعلیم کے حوالے سے خامیوں پر بات کی جاتی ہے،تو کبھی اس حوالے سے ہر شخص اپنی فکر کے مطابق تجاویز دیتا ہے،کبھی کوئی اس کا ذمہ دار حکومت کوٹھہراتا ہے۔تو کبھی کوئی وسائل کے رونے روتا ہے۔ اور کبھی مجموعی طور پر دینی اور دنیاوی تعلیم میں فرق کی آواز لگائی جاتی ہے۔ اور ان کے درمیان تقابل کیا جاتا ہے۔اور کوئی کھلے لفظوں میں ،کوئی غیر محسوس انداز میں دینی مدارس پر انگلیاں اٹھاتا ہے۔ مشورے و تجاویز دینے والے لوگ یہ راگ بھی الاپتے ہیں کہ یہ دنیاوی تعلیم کو دینی مدارس میں بھی ہونا چاہئے۔ یہ الگ بات ہے اس کےدوسرے رخ پر روشنی ڈالنے سے اجتناب کیا جاتا ہے،کہ اس دینی تعلیم کو کما حقہ ہر لیول (Level)کی دنیاوی تعلیم کے ساتھ لازم ہونا چاہئے۔ بہرحال اس تمام تر گہما گہمی اور گرما گرمی میں ایک موضوع کہیں نظر نہیں آتا اور وہ یہ ہےکہ بحیثیت مسلم ہم ذرا اس موضوع کو اس نظر سے دیکھیں کہ کیا اوائل اسلام کے دور میں اس طرز کی تقسیم موجود تھی کہ ایک طرف دنیاوی یونیورسٹیاں قائم کردی