کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 7
کیا اب بھی کاروائی ضروری نہیں تھی جب کہ دار الخلافہ باغیوں کے قبضے میں چلا گیا اورقریب تھا کہ عدن بھی مقبوضہ بن جائے ۔ ششم: عموما ہمارے میڈیا میں یہ بات نشر کی جارہی ہے کہ حوثی قبائل کا مکہ مدینہ پر حملے کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ اس حوالے سے مکہ مدینہ کو کوئی خطرہ ہے ، تو ان مفاد پرست عناصر کی خدمت میں عرض ہے کہ حوثی تحریک کے ایک رہنما نے ایک ٹی وی پروگرام میں علی الاعلان یہ بات کہی ہے کہ اگر خلیجی ممالک اور سعودیہ اپنی حرکات سے باز نہیں آئے تو ہمارا پڑاؤ کعبۃ اللہ کا مقام رکن یمانی ہوگا۔ تفصیل کےلئےآپ یہ لنک ملاحظہ کرسکتے ہیں https://www.youtube.com/watch?v=V5t3s1Rjuis نیز حوثی تحریک کے سربراہ عبد الملک حوثی اپنی ایک تقریر میں سعودیہ کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ: ’’انہیں اپنے فعل کی بہت بھاری قیمت اداکرنی پڑے گی .‘‘ https://www.youtube.com/watch?v=Ac_4FdKIWEI حوثیوں نے یمن کے شہر صنعاء سے حاجیوں اور معتمرین کو لے جانی والی حج وعمرہ کی ٹریول ایجنسیز کو بھی خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیں جس کی بنا پر بہت سی حج وعمرہ کی کمپنیوں کو اپنا کام صنعاء سے عدن منتقل کرنا پڑا ۔ملاحظہ کیجئے https://newhub.shafaqna.com/.../10924408-الحوثي-يه حوثیوں کے ایک اور رہنما عبد الکریم الخیوانی نے سعودیہ کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ وہ آئندہ سال مکہ میں داخل ہوں گے ۔ ملاحظہ کیجئے http://www.alainonline.net/news_details.php?sid=17955 ان تمام حقائق کے بعد بھی کوئی اس خام خیالی میں ہے کہ حوثیوں کا بیت اللہ اور مکہ ومدینہ کے حوالے سے کوئی برا ارادہ نہیں تو ایسے شخص کی آنکھوں پر فریب نفس ،دھوکہ اور تعصب کی پٹی کے سوا کچھ نہیں ۔ اگر ان حوثیوں کو سعودیہ سے عداوت تھی تو یہ ریاض پر حملے کا ذکر کرتے کیونکہ آل سعود کا دار الخلاٖفہ ریاض ہے نہ کہ مکہ ومدینہ لیکن ان کے زعماء ورہنماؤں کامقدس مقام مکۃ المکرمہ کا نام لینے سے ان کے عزائم بخوبی واضح ہوچکے ہیں ۔