کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 5
موحدین جن میں سرفہرست آل سعود ہیں ) کے ہی نصیب میں ہے ۔ جو اللہ کے گھر کی طرف اٹھی ہر ناپاک نگاہ کو’’کعصف مأکول ‘‘ کھائے ہوئے بھس کی مانند بنا دیتی ہیں ۔ در اصل ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارا حال بالکل ایسا ہی ہوچکا ہے جیسا کہ کسی کہنے والے نے خوب کہا۔ غضب کی ایکتا دیکھی لوگوں کی زمانے میں زندوں کو گرانے میں مردوں کو اٹھانے میں ہم زندہ بندے کی قدر نہیں کرتے اور جب مرجاتاہے تو اسے آسمانوں پہ چڑھادیتے ہیں ۔ہم دنیا میں جاری حقائق وحوادث کے دوررس نتائج پر غور نہیں کرتے مگر جب وقت ہاتھ سے نکل جاتاہے تو لگتے ہیں پٹاری کھول کر بین بجانے ۔ موجودہ صورت حال میں صحیح اور مناسب فیصلہ کرنا شاید فکری غلامی کے باعث ہمارے لئے ممکن نہیں رہا ۔ اس لئے عراق میں قتل عام ہوا جن میں سب سے اکثریت سنی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی ذبح ہوئے ۔ کوئی نہیں بولا کہ اس کی وجہ سے فرقہ واریت کو ہوا ملے گی ۔ شام میں کلسٹر بموں کے دسیوں حملے ہوچکے شہداء کی تعداد تین لاکھ سے تجاوز کر گئی ۔ چھوٹے بچے زہریلی گیس سے دم گھٹنے سے مرے شام کی مدد علی الاعلان روس اور ایران عراق کرتے رہے ۔ کسی نے فرقہ واریت کا نام نہیں لیا ، کسی نے نہیں کہا کہ خطے میں آگ بھڑک اٹھے گی ۔ لیکن جب سر زمین حرمین کے تحفظ کی خاطر یمن کے باغیوں کولگام دینے کی باری آئی تو فوراً ہمارے دانشوروں کے دل میں بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں معصوم مسلمانوں کےلئےہمدردی جاگ اٹھی ۔ یہ سب اس امر کی عکاسی ہے کہ ہم ذہنی غلام ہیں کوئی مغرب کا ، کوئی نام نہاد ملاؤں کا، جنہیں سعودیہ میں رائج توحید ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔ خدارا کفر مسلمانوں کو ذہنی اور فکری اعتبار سے اپاہج کرنے کے بعد حالات اس نہج پہ لے جا رہا ہے کہ ہمارے دلوں میں موجود ایمانی حس جو تھوڑی بہت زندہ ہے وہ بھی مرجائے ۔ اور اس کےلئےوہ تجربے کرتا رہتاہے ۔ سب سے پہلے انہوں نے ہمارے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی توہین کی۔سڑکوں پر امت کے جذبات بہت نظر آئے لیکن پھر جھاگ کی طرح بیٹھ گئے ۔ یہی حال ہماری مقدس کتاب قرآن پاک کے ساتھ ہوا ۔ اسے بھی جلایا گیا ہم سڑکوں پر نکل کر پھر گھروں میں دبک گئے ۔ اب وہعملی تجربہ کرنے جا رہے ہیں کعبۃ اللہ پر ۔ جو مسلمانوں کو متحد رکھنے کا اللہ رسول کے بعد بہت بڑا ذریعہ ہے ۔ مگر بہت سے مسلمان حکمران اور نام نہاد مسلمان اس تجربے کابھی آنکھوں