کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 4
کا ہے ۔جہاں تک کعبہ کا تعلق ہے تو ’’ للبیت ربا یحميه ‘‘ اس کا رب ہے خود حفاظت کرلے گا اس سے ہمیں سروکار نہیں، ہمارا بنیادی مسئلہ چند اونٹوں (معیشت )کا ہے اسے سب سے پہلے حل ہونا چاہئے ۔ اسی کی بنیاد پر ہمیں فیصلے کرنے چاہئیں ۔
اور دوسرا کام جو ہمارے اس فکر کے حامل ساتھی کر رہے ہیں وہ عبد المطلب کے کام سے ملتا جلتاہے کام ہےکہ عبد المطلب تو قریش کو لیکر پہاڑوں پر بیٹھ کر تماشا دیکھنے لگے تھے ۔ اور ہمارے ان ساتھیوں کو چونکہ پہاڑ نہیں ملے اس لئے انہوں نے ثالثی کے نام سے مسئلہ سے کنارہ کش ہوکر تماشہ دیکھنے بیٹھ گئے ہیں کہ کیا ہوتاہے؟اب اگر سعودیہ کو اس میں فتح مل گئی تو اس قسم کے لوگ دوبارہ فیس بک ، ٹویٹر کے پیچز پر کود پڑیں گے اور غازیوں شہیدوں کی داستانیں شیئر کرنے لگیں گے ۔
مگر یہاں ایک بات بہت خوش آئند ہے کہ الحمد للہ عالم اسلام میں بہت سے ایسے اہل توحید بھائی ہیں جوحقیقی خطرے کو بھانپ چکے ہیں اور اللہ کے گھر کی حفاظت کےلئےبے تاب ہیں ۔ موضوع کی مزید تفصیل میں جانے سے پہلے تمام اہل اسلام سے گذارش ہے کہ خدارااصل خطرے کو سمجھیں اور اہل نفاق کے کردار سے ہٹ کر اہل ایمان کا کردار ادا کریں ۔ اور ایسے نہ بنیں کہ
[ يَحْسَبُوْنَ الْاَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوْا ۚ وَاِنْ يَّاْتِ الْاَحْزَابُ يَوَدُّوْا لَوْ اَنَّهُمْ بَادُوْنَ فِي الْاَعْرَابِ يَسْاَلُوْنَ عَنْ اَنْۢبَاۗىِٕكُمْ ۭ وَلَوْ كَانُوْا فِيْكُمْ مَّا قٰتَلُوْٓا اِلَّا قَلِيْلًا 20ۧ]
سمجھتے ہیں کہ اب تک لشکر گئے نہیں۔ اور اگر فوجیں آجائیں تو تمنائیں کرتے ہیں کہ کاش! وہ صحرا میں بادیہ نشینوں کے ساتھ ہوتے کہ تمہاری خبریں دریافت کیا کرتے، اگر وہ تم میں موجود ہوتے (تو بھی کیا؟) نہ لڑتے مگر برائے نام ۔
تو گاؤں ، دیہات اور شہروں میں بیٹھ کر خبریں جنگ وجہاد کی خبریں سننے والا کوئی مجاہد اور غازی نہیں بن جاتا ۔اس لئےاپنے ایمان کا جائزہ لیتے ہوئے بتائیے کہ کیا ہم ابرہہ کی فکر کے لوگوں کے حمایتی ہیں یا عبد المطلب کی یا اس وقت کے ابابیلوں کی مانند اللہ کے گھر کی حفاظت کےلئےسینہ سپر ہونے کےلئےتیار ہیں ۔ اور رب کا بھی فرمان ہے کہ ’’ میرے گھر کی تعمیر وہی کرتاہے جو ایمان والا ہو ‘‘بظاہر اس امت کے ٹی وی چیلنوں پر بیٹھےنام نہاد مفکرین اور بعض مذھبی اداکاروں اورکاسہ برداروںکی حرکات سے تو یہ لگتا ہے اللہ کے گھر کی حفاظت کی سعادت اب بھی شاید ابابیلوں( یا