کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 2
لا يغلبن صليبهم ومحالهم عددا يوالك
إن يدخلوا البلد الحرام فأمر ما بدا لك
اے اللہ! بندہ تو بس اپنی سواری کی حفاظت کرسکتاہے تو اپنے حرم کی حفاظت کر ۔ یہ تو ہرگزنہیں ہوسکتاکہ ان کی صلیب اوران کی ڈولیں تیری ڈولوں پرغالب آجائیں۔ ہاں اگر یہ اس بلد حرام میں داخل ہوجائیں تو تو جیسا چاہے کر ۔
یہ محض ایک تاریخی واقعہ ہے ۔ جسے غالبا ہر مسلمان پڑھتاہے ، سنتاہے ، لیکن اس سے سبق حاصل نہیں کرتا ۔ اگر اس واقعہ کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں بہت سے دروس وعبر ہیں ۔
اول: ہر وقت کے جبارین اور متکبرین کا مطمح نظر کعبۃ اللہ رہا ہے اور وہ ان کی آنکھوں میں کھٹکتا رہاہے۔ ان میں سے جس کا بس چلا اس نے اس پر چڑھائی سےبھی گریز نہ کیا ۔
دوم : یہ لشکر یمن کے شہر صنعاء سے نکلا تھا ۔
سوم : اس وقت مکہ کے بظاہر متولی مشرک لوگ تھے ۔ جنہوں نے اس کی حفاظت کرنے سے معذوری ظاہر کردی ۔ اور وہ کر بھی نہیں سکتے تھے ۔ کیونکہ حرمات اللہ ، اور بیوت اللہ کی حفاظت وتعمیر کا کام مشرکین کے بس کی بات نہیں فرمان باری جل وعلا ہے:
[اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ 18]
اللہ کی مسجدوں کی رونق و آبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں، نمازوں کے پابند ہوں، زکٰوۃ دیتے ہوں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں، توقع ہے یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں ۔
چہارم : اس وقت مشرکین کے سردار عبد المطلب نے ابرہہ سے جس مسئلے کے حل کےلئےبات چیت کی وہ معیشت کا مسئلہ تھا کیونکہ ان کا اس کا اور اس کے کنبے قبیلے کا انہی اونٹوں پر گزر بسر ہوتاتھا ۔ لہذا وہ مشرک تھے اور مشرک کا مطمح نظر محض دنیا ہوتی ہے آخرت نہیں ۔ اس لئے وہ اپنی دنیا کےلئےہی سوچتاہے اور اسی کےلئےلڑتا بھڑتاہے ۔ اس لئے عبد المطلب نے کہا کہ میری