کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 15
ہے کہ میرے گھر والے یہ لوگ ہیں تو اس کا قبول کرنا واجب ہے اور ایک قرینہ اس کا یہ ہے کہ اس آیت کے اول اور آخر جمع مؤنث حاضر سے خطاب ہےاور اس میں جمع مذکر کی ضمیرسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت ان آیتوں کے بیچ میں رکھ دی گئی ہے جن میں ازواج مطہرات سے خطاب تھا او ر صحابہ کرام نے اپنے اجتہاد سے ایسا کیا ‘‘ اھ۔[1]
مولانا کو اس جگہ کئی ٹھوکریں لگی ہیں۔
اولاً:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا :
’’اللھم ھؤلاءأھل بیتی فأذھب عنھم الرجس وطھرھم تطھیرا ‘‘۔ [2]
یعنی اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے رجس ہٹا اور انہیں پاک کردے۔ اس سے انھوں نے سمجھا کہ آیت تطہیر کو نسبی گھر والوں کے ساتھ مختص فرما رہے ہیں حالانکہ آپ نے دعا کہ طور پر ان کو شامل کئے جانے کی اللہ جل مجدہ سے عرض کی۔ جس کا قرینہ یہ بھی ہے کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے جب فرمایا کہ میں بھی ان میں آجاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’أنت علی مکانک وأنت إلی خیر‘‘۔ [3]
تو اپنی جگہ ہے اور تو بہتری میں ہے۔(کہ یہ آیت نازل ہی تمہارے لئے ہوئی ہے)
ثانیا ً: مولانا کو جمع مذکر کے تخاطب سے مغالطہ ہوا جبکہ قرآن مقدس میں جمع مذکرکے ساتھ عورتوں کو مخاطب کرنا ثابت ہے۔ سورۃ طہ، آیت:10 میں ہے:
[فَقَالَ لِاَهْلِهِ امْكُـثُوْٓا اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ نَارًا]
’’ یعنی( موسی علیہ السلام )نے اپنی بیوی کو کہا تم ٹھہرومیں آگ دیکھ رہا ہوںـ‘‘۔
اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ کو ملائکہ نے خطاب کیا سورہ ہود آیت ۷۳ میں ہے
[قَالُوْٓا اَتَعْجَبِيْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكٰتُهٗ عَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ ۭ اِنَّهٗ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ ]
یعنی ’’ اللہ کے امر سے تعجب کرتی ہو اے اہل بیت تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں وہ تعریف
[1] تفسیر وحیدی:549
[2] جامع ترمذی
[3] جامع ترمذی ، جلد:2، ص:220