کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 107
حیا کی آبیاری: سیدناعبد اللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے بچے جب دس سال کے ہوجائیں تو ان کے بستر بھی الگ الگ کر دو‘‘[1] اچھی تربیت: اولاد کے لیے والدین خصوصا ماں کی گود پہلی در س گاہ ہوتی ہے لہذا ان پر تربیت کی بھاری ذمہ داری آتی ہے۔ کسی بھی عمارت کی بنیاد میں اگر پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی لگ جائے تو پوری دیوار ٹیڑھی ہوجاتی ہے۔ آج کے والدین اولاد کے اعلیٰ مہنگے تعلیمی اداروں میں داخلوں پر تو توجہ دیتے ہیں لیکن اچھے با کردار انسان بنانے کی فکر نہیں کرتے۔ سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہےرسول اللہ نے فرمایا:’’ ہر ایک بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مشرک بناتے ہیں اس لیے اپنے بچوں کو ادب سکھاؤ اور ان کی اچھی تربیت کرو‘‘[2]۔ دنیا پر آخرت کو ترجیح دیں: والدین غیر شعوری طور پر اللہ کے مقرر کردہ فرائض مؤخر کر کے بچے کے سامنے دنیاوی کاموں کو اہمیت دیتے ہیں مثلاًاکثر والدین بچوں کو فجر کے لیے نہیں اٹھاتے کہ وہ تھکے ہوئے ہیں روزے نہ رکھنے کا کہتے ہیں کہ پڑ ھ پڑھ کر کمزور ہوجائیںگے امتحانات کے ابتداء میں قرآن پڑھانے والوں کی چھٹی کردیتےہیں، وقت نہیں ہے۔ یہ ساری فکر کا محور یہ ہوتا ہے یہ اولاد پڑھ لکھ کر ایک کامیاب انسان بن جائے جس کا معاشرے میں Statusہو۔ گھر ، گاڑی، بنگلہ۔ لیول: کیا دوران تربیت یہ Level یاد آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جنت کےسو درجے ہیں
[1] ابو داؤد [2] بخاری