کتاب: اعلاء السنن في الميزان - صفحہ 28
محمود حسن کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے کہا کہ بالفعل مولانا اشرف علی تھانوی آثار السنن کی طرز پر ایک کتاب تالیف کر رہے ہیں۔ یہ سن کر شیخ الھند نے فرمایا کہ مولانا اشرف علی میرے شاگرد بھی ہیں، لیکن وہ آثار السنن کی طرح لکھ نہیں سکتے۔‘‘ یہ شیخ محترم کا اپنے تلمیذِ رشید کے بارے میں تأثر ہے۔ ہم اس بارے میں مزید کچھ عرض کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
کچھ عرصہ بعد مولانا تھانوی کو پھر اس بارے میں خیال آیا تو ’’جامع الآثار‘‘ کے نام سے اپنے مذہبِ حنفی کی روایات کو مرتب کیا۔ لیکن یہ سلسلہ ابواب الصلاۃ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ تووہی حصہ شائع کر دیا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے ’’تابع الآثار‘‘لکھی، جو دراصل جامع الآثار کا حاشیہ ہے۔ جس میں انھوں نے اپنے ذوق کے مطابق باہم متعارض احادیث کی توجیہ اور تطبیق کی کوشش کی۔ یہ دونوں تقریباً ۱۳۱۵ھ میں مطبع قاسمی دیوبند سے شائع ہوئیں۔
اس کے بعد ۱۳۳۱ھ میں انھیں خیال ہوا کہ یہ دونوں کتابیں نہایت مختصر ہیں اور ابواب الصلاۃ تک کے مباحث پر مشتمل ہیں اس لیے چاہیے کہ تمام فقہی مباحث پر مشتمل حنفی مذہب کی مؤیداحادیث کو جمع کیا جائے اور شرح وبسط سے ان پرروایتاً ودرایتاً بحث کی جائے۔مگر یہ سمجھتے ہوئے کہ اس کام کو میں تنہا سر انجام نہیں دے سکتا، انھوں نے مولانا احمد حسن سنبھلی کو یہ کام سپرد کر دیا۔ وہ جس قدر یہ کام کرتے جاتے مولانا تھانوی اس کی مراجعت فرمالیتے اور اگر تبدیلی کی ضرورت محسوس کرتے تو اسے بدل دیتے یوں یہ سلسلہ کتاب الحج تک جا پہنچا۔اور اس کا نام ’’احیاء السنن ‘‘رکھا۔لیکن اس کے بعد جب مولانا سنبھلی نے اس کی مراجعت کی تو انھوں نے بہت کچھ بدل ڈالا حتی کہ مولانا تھانوی کی بہت سی تصحیحات کو بھی بدل دیا اور کتاب کا ’’اصل منہج‘‘ ہی باقی نہ رہا۔ اس کی ایک جلد جب شائع ہو گئی تو مولانا تھانوی نے اس میں بہت سے ’’تسامحات ‘‘کی بنا پر اسے حسب منشأ نہ سمجھتے ہوئے اس کی باقی طباعت موقوف کروادی اور یہ کام مولانا ظفرا حمد عثمانی تھانوی کے