کتاب: اعلاء السنن في الميزان - صفحہ 23
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ایسی ایمان افروز وضاحت کے بعدان کی الجامع الصحیح میں ان کے مذہبی رجحانات کاعمل دخل بتلانا کس قدر گندا اور بدبودار الزام ہے۔ مگر ادھر تو اعتراف ہے کہ ہم یہ ساری’’خدمت‘‘ مذہب کی حمایت میں سر انجام دے رہے ہیں۔ غور فرمائیے اور بتلائیے جب اپنا ہدف ہی یہ بنالیا جائے تو اس ’’کار خیر‘‘ کا انجام کیا ہو گا؟ یہی حقیقت واضح کرنے کے لیے ہم اعلاء السنن کا جائزہ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں،جس سے اندازہ ہوسکے گاکہ اپنے مذہب کی تائید میں کتنے پاپڑ بیلے گئے، عدل وانصاف کی کیسے کیسے دھجیاں اڑائی گئیں، اپنے ہی پسندیدہ اصولوں کو کیسے کیسے تارتار کیا گیا۔آپ ان شاء اللہ ملاحظہ فرمائیں گے کہ مذہب کی تائید میں کیسے کیسے راویوں اور کیسی کیسی احادیث کا سہارا لیا گیا، اس میں اکثر وبیشتراستدلال کی پوزیشن تقریباً وہی ہے جو اہلِ کوفہ کو فی نبیذ کے جواز کے لیے پیش کرتے تھے اور امام عبد اللہ بن ادریس نے انھیں فرمایا تھا:
((یا أہل الکوفۃ إنما حدیثکم الذی تحدثونہ فی الرخصۃ فی النبیذ عن العمیان والعوران والعمشان، أین أنتم عن أبناء المھاجرین والانصار)) [1]
’’اے اہلِ کوفہ نبیذ کی رخصت کے بارے میں تمھاری احادیث جو تم بیان کرتے ہو وہ اندھوں ، کانوں اور چندھوں سے ہیں ،مہاجرین اور انصار کی اولاد سے کیوں روایت نہیں کرتے۔‘‘
اہلِ الرائے تاویل کے بادشاہ ہیں، اطمینانِ قلب کے لیے وہ جو چاہیں تاویل کریں ،مگر صحابہ کرام کو اپنی تاویل کی بھینٹ چڑھانا کون سی خدمت ہے؟ جس کی تفصیل اپنے اپنے مقام پر آئے گی۔ان شاء اللہ
ناسپاسی ہو گی اگر میں یہاں ادارۃ العلوم الاثریہ کے تمام معاونین کا شکریہ ادا نہ کروں جن
[1] بیہقی: 306/8وغیرہ.