کتاب: اعلاء السنن في الميزان - صفحہ 174
ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اور یہی قول ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ [1] اور سفیان رحمۃ اللہ علیہ کا ہے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے صحیح ہے کہ وہ ہر تکبیر میں رفع الیدین کرتے تھے۔‘‘
جس سے یہ بات نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رفع الیدین کی نفی نہیں بلکہ رفع الیدین کرنا صحیح وثابت بتلایا ہے۔ لہٰذا جب دعوی ہی باطل ہے تو اس پر جو اپنے اصول کے تحت تفریع قائم کی گئی وہ بھی باطل ٹھہری اور ان کی مرفوع حدیث مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے اپنے موقف کے مطابق کم سے کم حسن اور مقبول قرار پائی۔ یہاں یہ بات بھی پیش نگاہ رہے کہ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کی عمدۃ القاری[2] سے جو عبارت مولانا صاحب نے نقل کی اس کے علاوہ دوسرے ہی صفحہ [3] میں دوبارہ یہ بات ذکر کی ہے کہ ’’پہلے قریب ہی ہم نے ذکر کیا ہے کہ ابن حزم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے صرف پہلی تکبیر میں ہی رفع الیدین کا ذکر کیا ہے۔‘‘مگر یہ بات بہر حال درست نہیں۔ علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما ‘‘سے یہ موقف نقل کیا ہے، علامہ عینی نے غلطی سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی جگہ ’’ابن عمر رضی اللہ عنہما ‘‘ ذکر کر دیا۔
غلطی ہائے مضامین مت پوچھ
یہی نہیں بلکہ علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ سے پہلے علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’المبسوط‘‘ کے حوالے سے
[1] یادرہے کہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے المحلی(128/5)میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے تکبیرات جنازہ میں رفع الیدین کرنا بھی نقل کیا ہے، اور ان کی تردید کی ہے۔ جس پر نصب الرایہ کے حنفی محشی فرماتے ہیں: ’ھذہ النسبۃ منہ أعجب‘ ان کی طرف یہ نسبت بڑی عجیب ہے۔(حاشیہ نصب الرایہ:285/2)مگر مولانا عثمانی نے باحوالہ ذکر کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے یہ قول بھی منقول ہے اور اکثر ائمہ بلخ کا اس پر عمل ہے۔ (اعلاء السنن: 221,220/8)اس لیے حنفی محشی کی ابن حزم رحمہ اللہ پر برہمی، بجائے خود تعجب کا باعث ہے کہ انھیں اپنے گھر کی بھی خبر نہیں.
[2] عمدۃ القاری: 137/4وفی نسخۃ عندنا: 123/8.
[3] صفحہ: 124/8.