کتاب: اعلاء السنن في الميزان - صفحہ 137
امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کے شیوخ مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے جابجایہ اصول بھی ذکر کیا ہے کہ امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کے تمام شیوخ ثقہ ہیں۔ چنانچہ محمد بن سلیمان بن عاصم کو اس لیے ثقہ قرار دیا ہے کہ امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ اس سے روایت کرتے ہیں۔[1]
[1] اعلاء السنن:1/92مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں نصب الرایہ (1/37)سے ایک روایت ذکر کی،جس کی سند یوں ہے: احمد بن الفرج عن بقیۃ ثنا شعبۃ عن محمد بن سلیمان بن عاصم بن عمر بن الخطاب الخ۔ اور محمد بن سلیمان کی بس اس ناطے توثیق کی کہ وہ امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کا استاد ہے۔ حالانکہ اس نام کے کسی راوی کا کوئی اتا پتا کتب رجال میں نظر نہیں آیا۔ یہ دراصل محمد بن سلیمان نہیں عمر بن سلیمان ہے اور وہ ثقہ ہے، امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے احمد بن الفرج کے ترجمہ میں اس کی صراحت کی ہے،مگر افسوس کہ علامہ الزیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ اور بقیہ بن ولید کے ترجمہ میں تو اس روایت پر مفصل نقد کیا ہے، مگر علامہ الزیلعی کی اس طرف بھی توجہ نہیں گئی۔چنانچہ یہی روایت نقل کر کے امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ((ھذا الحدیث وإن کان فی إسنادہ بعض الإرسال فإنی لم اکتبہ إلا ّ عن ابن أبی سفیان الموصلی، وھو منکر من حدیث شعبۃ عن محمد بن سلیمان، إنما أراد بہ عمر بن سلیمان فصحف، ولبقیۃ عن شعبۃ کتاب وفیہ غرائب، وتلک الغرائب ینفرد بھا بقیۃ عنہ وھی محتملۃ، وإنما ذکرت ھذہ الثلاثۃ أحادیث متفرقۃ من ھذہ الترجمۃ لبقیۃ عن شعبۃ لأي واحد منھما أخطأ علی شعبۃ فی إسنادہ، والثانی صحفواعلی بقیۃ فقالوا شعبۃ والثالث عن شعبہ باطل۔))(الکامل:2/509) ’’اس حدیث میں اگرچہ کچھ ارسال ہے میں نے اسے عبداللہ بن ابی سفیان الموصلی سے ہی لکھا ہے اور وہ شعبہ عن محمد بن سلیمان کی حدیث سے منکر ہے اس کا ارادہ عمر بن سلیمان ہے، جس میں تصحیف ہے اور بقیہ کی شعبہ سے روایات پر کتاب ہے اور اس میں غرائب ہیں اور ان غرائب میں بقیہ شعبہ سے روایت میں منفرد ہے اور وہ محتمل ہیں۔ میں نے یہ تین احادیث متفرق طور پر بقیہ عن شعبہ سے نقل کی ہیں ان میں سے ہر ایک میں اس سے اس کی سند میں شعبہ پر غلطی ہوئی ہے،دوسرا یہ کہ ’’شعبہ‘‘ کہنے میں ان سے بقیہ پر سے تصحیف ہوئی ہے۔(یہ شعبہ نہیں بقیہ ہے) اور تیسرا شعبہ سے یہ باطل ہے۔‘‘ امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کی اس صریح جرح اور اس کو باطل قرار دینے کے بعد اسے قابلِ اعتماد بنانے کی کوشش حقیقت سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔ امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کی اس وضاحت کے باوجود علامہ الزیلعی رحمۃ اللہ علیہ سے محمد بن سلیمان کے بارے میں وضاحت نہ کرنے میں جیسے تسامح ہوا اور ان کے اس مفصل کلام سے بھی غالباً وہ مطلع نہیں ہوئے ،اسی طرح ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ سے جو یہ نقل کیا ہے کہ انھوں نے کتاب العلل میں فرمایا ہے: کہ احمد بن الفرج سے ہم نے لکھا ہے اور وہ ہمارے نزدیک صدوق ہے۔ ’کتبنا عنہ ومحلہ عندنا الصدق‘ یہ بھی ان کا تسامح ہے ۔امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے نہ یہ روایت العلل میں ذکر کی، نہ ہی اس میں احمد بن الفرج سے کوئی روایت ہے اور نہ اس کے بارے میں یہ توثیق منقول ہے۔ مقدور بھر کوشش کے باوجود العلل میں اس کا سراغ نہیں ملا ۔ یہ کلام دراصل الجرح والتعدیل (ج1 ق 1ص67) میں ہے۔ احمد بن الفرج کیسا ہے اور یہ روایت کیسی ہے یہ ہمارا موضوع نہیں۔ شائقین السلسلۃ الضعیفہ(470) ملاحظہ فرمائیں۔ ہمیں تو محمد بن سلیمان کے حوالے سے کچھ عرض کرنا تھا اور امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جو اس حدیث کو قابلِ اعتبار بنانے کی کوشش کی گئی ہے اس کی وضاحت مقصود ہے.