کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 97
۱:… واجب کی ادائیگی کے دوران یہ قصد کرنا چاہیے کہ اس سے میرا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ میں یہ ذمہ داری کسی دنیوی مصلحت و منفعت کی غرض سے ادا نہیں کر رہا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاo اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنَعًاo﴾ (الکہف: ۱۰۳-۱۰۴) ’’کہہ دے کیا ہم تمھیں وہ لوگ بتائیں جو اعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں ۔ وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں ضائع ہوگئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ بے شک وہ ایک اچھا کام کر رہے ہیں ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَ اِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیئٍ مَّا نَوٰی)) [1] ’’بے شک اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو اسی قدر ملے گا جیسی اس نے نیت کی ہو گی…۔‘‘ کسی فقیہ کا کتنا ہی خوبصورت قول ہے: ’’اطاعت گزار مومن کا مقصد اس کے عمل کے دوران اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے دنیا کی عیش و عشرت، زندگی کی فرحت و بزرگی یا اپنے آپ کو یا اپنے قلب و روح کو سعادت مندی کا شعور دلانا نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کی رضا ہونا چاہیے ہمیں اپنی نگاہوں کا مرکز اللہ ہی کو بنانا چاہیے۔‘‘[2] ۲:… کچھ مثبت واجبات (ذمہ داریاں ہوتی ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ فروض و احکام کہ جن کی ادائیگی کے لیے شریعت اسلامی نے ترغیب دی ہے۔ ان واجبات کے ساتھ
[1] صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب بدء الوحی۔ [2] دستور الاخلاق فی القرآن، ص: ۱۸۰ د/ محمد عبداللہ دراز۔