کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 93
’’اگر ہم سنتے ہوتے، یا سمجھتے ہوتے تو بھڑکتی ہوئی آگ والوں میں نہ ہوتے ۔‘‘ البتہ التزام اخلاقی کے ایک اہم مصدر کے طور پر ایک بااخلاق آدمی کا ضمیر اسے نیک اعمال کی طرف رغبت دلاتا ہے اور افعال قبیحہ سے اسے نفرت دلاتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ((اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ)) [1] ’’یہ کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کر گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو (اپنے اندر) یہ کیفیت پیدا نہیں کر سکتا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے تو وہ یقینا تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلْبِرُّ مَا اطْمَاَنَّ اِلَیْہِ الْقَلْبُ وَ اطْمَاَنَّتْ اِلَیْہِ النَّفْسُ، وَ الْاِثْمُ مَا حَاکَ فِی الْقَلْبِ وَ تَرَدَّدَ فِی الصَّدْرِ وَ اِنِ افْتَاکَ النَّاسُ)) [2] ’’نیکی وہ ہوتی ہے جس پر تیرا دل مطمئن ہو اور تیرے ضمیر کو اطمینان حاصل ہو اور گناہ وہ ہوتا ہے جو تریے دل میں کھٹکے اور سینے میں جو خلجان پیدا کرے اگرچہ لوگ تجھے (اس کے جواز کا) فتویٰ دیں ۔‘‘ آخر میں ہم یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ حصول منفعت بھی التزام اخلاقی کا ایک اہم مصدر ہے کیونکہ ہر انسان اپنے اعمال کا دنیا میں احسن خاتمہ چاہتا ہے کہ وہ جو اعمال اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرتا ہو۔ چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌo﴾ (الحج: ۵۰) ’’تو وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ان کے لیے سراسر بخشش اور باعزت رزق ہے۔‘‘
[1] صحیح بخاری، کتاب الایمان، ج ۱، ص: ۱۱۴۔ صحیح مسلم، کتاب الایمان، ج ۱، ص: ۱۵۷۔ [2] مسند احمد، ج ۴، ص: ۱۹۴۔ سنن الدارمی، کتاب البیوع، ص: ۲۔