کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 92
﴿ الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِأَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَo﴾ (النور: ۲) ’’جو زنا کرنے والی عورت ہے اور جو زنا کرنے والا مرد ہے، سو دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور تمھیں ان کے متعلق اللہ کے دین میں کوئی نرمی نہ پکڑے، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور لازم ہے کہ ان کی سزا کے وقت مومنوں کی ایک جماعت موجود ہو۔‘‘ اسی لیے اسلام نے امت کے خاص افراد کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ترغیب دلائی ہے تاکہ وہ اپنے اندر ان کمزور ایمان لوگوں کو اعتدال پر رکھ سکیں جو دنیاوی معاملات میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ لَوْ اٰمَنَ اَہْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ مِنْہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَکْثَرُہُمُ الْفٰسِقُوْنَo﴾ (آل عمران: ۱۱۰) ’’تم سب سے بہتر امت چلے آئے ہو، جو لوگوں کے لیے نکالی گئی، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر تھا، ان میں سے کچھ مومن ہیں اور ان کے اکثر نافرمان ہیں ۔‘‘ اسی طرح عقل انسانی ہر فرد کو سیدھا رکھتی ہے اور اسے اچھے اور برے کردار میں فرق بتلاتی ہے۔ چونکہ سلیم العقل ہر فرد خلق حسن و حمید کے ساتھ التزام کرتا ہے اور اس کے برعکس ذاتی طور پر برا شخص آخرت میں اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ بزبان خود کہیں گے: ﴿ لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِo﴾ (الملک: ۱۰)