کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 81
اور کچھ کہتے ہیں کہ سعادت اور لذت حسی چیزیں ہیں اور کچھ نے سعادت کو صرف عقل کے ساتھ مقید کر دیا۔ وضعی فلاسفہ کے مذکورہ بالا اختلاف و تردد کے ساتھ ساتھ ان علماء کی اس ناکامی کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ جس کا ان کو نظم، معیار اور غایت اخلاقی اور خصوصی انسانی سلوک کے درمیان توفیق و تطبیق دیتے وقت سامنا ہے کہ جب انسانی رغبات، خواہشات، میلانات اور قدرات میں زمانہ اور مقام کے اختلاف کی وجہ سے تعدد و تنوع پیدا ہو جائے تو ان کے پاس اس کا کوئی حل نہیں ۔ سابق الذکر خلاصہ میں جو کچھ تحریر کیا جا چکا ہے اور جو معاملات و مشکلات بظاہر ناقابل حل ہیں ۔ ان سب کو ان مشکلات کے خالق و رب حقیقی کی طرف لوٹانا واجب ہے۔ کیونکہ وہی کائنات کی باطنی معاملات اور اپنی متنوع مخلوقات کا خالق، رب، قادر اور علیم و خبیر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاَسِرُّوْا قَوْلَکُمْ اَوِاجْہَرُوْا بِہٖ اِِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِo اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیفُ الْخَبِیْرُo﴾ (الملک: ۱۳-۱۴) ’’اور تم اپنی بات کو چھپاؤ ، یا اسے بلند آواز سے کرو (برابر ہے)، یقینا وہ سینوں والی بات کو خوب جاننے والاہے۔ کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ہے اور وہی تو ہے جو نہایت باریک بین ہے، کامل خبر رکھنے والا ہے ۔‘‘ اللہ ہی انسان کو دنیا میں فلاح دینے والا اور آخرت میں حسن جزاء دینے والا ہے وہی اس کا خالق، مدبر اور شریعت نازل کرنے والا ہے اور جو انسان اپنے تکبر و غرور کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے اوامر سے بغاوت کرے گا تو اس کا انجام بھڑکتی ہوئی آگ میں ہو گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ قَالَ اہْبِطَا مِنْہَا جَمِیْعًا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ہُدًی فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشْقٰیo وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ