کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 80
جیسا کہ ان میں سے کسی نے کہا: ’’یہ حقیقت ہے کہ تمام لوگوں کی عقل ہمیشہ ایک سی ہوتی ہے اور عمومی نظام تبدیل نہیں ہوتا اس کے باوجود زمانے اور مقام کے اختلافات کی وجہ سے اخلاق تبدیل ہوتا رہتا ہے۔‘‘ کسی اور نے کہا: ’’انسان کے بنائے ہوئے قوانین قانون اخلاق کی بنیاد نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ انسان ہی بناتا ہے اور وہی انہیں ختم کرتا ہے اور وہی انہیں اپناتا ہے۔ جب وہ قوانین انسان کے بنائے ہوئے قوانین اخلاق پر پورے نہیں اترتے جن کی اتباع واجب تھی۔‘‘ یہی حال تربیت کا ہے کہ جس کے ذریعے کچھ فلاسفر چیلنج کرتے ہیں وہ بھی قانون اخلاق کی تفسیر نہیں کرتی۔ جو کہ عام قوانین کی بجائے اس کے علاوہ سب سے بڑی دلیل ہے۔[1] گویا علم اخلاق اور وضعی نظام کے مفکرین کی ناکامی کی بنیادی وجہ نفس بشریت کی روحانی اور جسمانی پہلوؤ ں کا تعدد ہے نیز اسی طرح عقلی اور ارادی پہلو ہیں جن کے اختلافات کی بنیاد پر متعدد و متباین حاجات و مشکل روابط سامنے آتے ہیں وضعی فکر و فلسفہ کی ناکامی ایک معتدل مثالی نظام بنانے میں ناکام ہو گئے ہیں کہ وہی معتدل اورمثالی نظام ہی متعدد روابط اور سابقۃ الذکر مختلف حاجات انسانیہ کے درمیان توازن برقرار رکھ سکتا ہے خصوصاً جب باہمی معاملات کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے اور متعدد اطراف سے مشکلات ظاہر ہو جاتی ہیں ۔ درج بالا ناکامی کی تاکید اس وقت مزید واضح ہو جاتی ہے جب وضعی فلاسفہ اسلامی اخلاق کے مقابلہ میں اپنے مقاصد کی وضاحت کرتے ہیں ۔ خصوصاً جب وہ سعادت کو بطور معیار اور غایت اخلاق تسلیم کرنے میں بظاہر متحد ہو جاتے ہیں ۔ تاہم ان دونوں نکات میں وضعی فلاسفہ کا اختلاف ہے۔ ان میں سے کچھ تو کہتے ہیں کہ سعادت صرف روحانی صفت ہے
[1] الاخلاق و معیارہا …، د/حمدی عبدالعال، ص: ۹۰۔