کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 79
ہے، پسند کی ہوئی ہے۔پس میرے ( خاص) بندوں میں داخل ہو جا۔ ‘‘ اور اللہ سبحانہ نے فرمایا: ﴿ وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَ سَعٰی لَہَا سَعْیَہَا وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُہُمْ مَّشْکُوْرًاo﴾ (الاسراء: ۱۹) ’’اور جس نے آخرت کا ارادہ کیا اور اس کے لیے کوشش کی، جو اس کے لائق کوشش ہے، جبکہ وہ مومن ہو تو یہی لوگ ہیں جن کی کوشش ہمیشہ سے قدرکی ہوئی ہے۔‘‘ اور اللہ جل شانہ نے فرمایا: ﴿ وَ اَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّۃِ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَاشَآئَ رَبُّکَ عَطَآئً غَیْرَ مَجْذُوْذٍo﴾ (ہود: ۱۰۸) ’’اور رہ گئے وہ جو خوش قسمت بنائے گئے تو وہ جنت میں ہوں گے، ہمیشہ اس میں رہنے والے، جب تک سارے آسمان اور زمین قائم ہیں مگر جو تیرا رب چاہے۔ ایسا عطیہ جو قطع کیا جانے والا نہیں ۔‘‘ اس طرح دائمی سعادت مکمل ہوتی ہے اور وہی حقیقی سعادت سے بہرہ ور ہوتا ہے جو اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ منہج کے مطابق گزارتا ہے۔ چاہے اس کا ذاتی معاملہ ہو یا دوسروں کے ساتھ معاملہ ہو یا دوسروں کے ساتھ معاملہ، ہر وقت اور ہر عمل سے اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو۔ اس طرح اسلامی اخلاق کا بنیادی ہدف حاصل ہوتا ہے اور وہ ہے روحانی، عقلی، نفسی اور حسی تمام پہلوؤ ں کے اعتبار سے سعادت دنیوی کا حصول اگرچہ اسلام آخرت میں حقیقی سعادت کو ہدف بناتا ہے۔ جسے وہ ابدی اور دائمی سعادت کہتا ہے۔ فصل دوم کا خاتمہ ان اختتامی کلمات میں وضعی نظام کی ناکامی کے اسباب کا خلاصہ تحریر کیا جائے گا۔ اور ان اسباب کا تذکرہ وضعی فلاسفہ کے اقوال میں ثابت شدہ حقیقت ہے۔