کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 78
اسباب و وسائل ہوں یا عملی ہوں اس کی تفصیل درج ذیل ہے: بنیادی حاجات کی تکمیل اسلام کا مقصد ہے۔ وگرنہ ہم ضیق نفس اور ڈپریشن کا شکار ہو جائیں اور احساس محرومیت ہم پر غالب ہو جائے۔ بشرطیہ یہ تکمیل افراط و تفریط کے بغیر ہو۔ چونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَo﴾ (الاعراف: ۳۱) ’’اے آدم کی اولاد! ہر نماز کے وقت اپنی زینت لے لو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ گزرو۔‘‘ درج بالا آیت کریمہ میں جو حکم بیان ہوا ہے وہ توسط و اعتدال ہے جس میں نہ کمی ہو نہ زیادتی ہو عبادات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ہَلَکَ الْمُتَنَطِّعُوْنَ)) [1] ’’تکلف و تشدد کرنے والے ہلاک ہو گئے۔‘‘ جہاں تک عملی میدان کا تعلق ہے تو یہاں بھی اعتدال ضروری ہے چاہے جسمانی عمل ہو یا دماغی عمل ہو اور اسی اعتدال کی وجہ سے ہمارے دنیوی معاملات منظم ہوتے ہیں اور سعادت دنیوی حاصل ہوتی ہے۔[2] ج:… انجام بخیر ضروری ہے۔ کامل سعادت آخرت میں فلاح اور اللہ کی رضا کے حصول سے حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یٰٓاَ یَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُo ارْجِعِیْ اِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃًo فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْo﴾ (الفجر: ۲۷-۳۰) ’’اے اطمینان والی جان ! اپنے رب کی طرف لوٹ آ، اس حال میں کہ تو راضی
[1] مختصر صحیح مسلم للالبانی، ص ۴۷۶، حدیث: ۱۸۲۴۔ [2] علم اخلاق الاسلامی، د/مقداد یالجن، ص: ۷۰-۸۱۔