کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 77
تھے۔ سو وہ لوگ جو اس پر ایمان لائے اور اسے قوت دی اور اس کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتارا گیا وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مِنْ سَعَادَۃِ ابْنِ آدَمَ ثَلَاثَۃٌ وَ مِنْ شِقْوَۃِ ابْنِ آدَمَ ثَلَاثَۃٌ مِنْ سَعَادَۃِ ابْنِ آدَمَ: اَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ وَ الْمَسْکَنُ الصَّالِحُ وَ الْمَرْکَبُ الصَّالِحُ، وَ مِنْ شِقْوَۃِ ابْنِ آدَمَ اَلْمَرْأَۃُ السُّوْئُ وَ الْمَسْکَنُ السُّوْئُ وَ الْمَرْکَبُ السُّوْئُ)) [1] ’’ابن آدم کی سعادت تین چیزوں میں ہے اور ابن آدم کی بدبختی بھی تین چیزوں میں ہے ابن آدم کی سعادت نیک بیوی، آرام دہ پر سکون رہائش اور منافع بخش سواری اور ابن آدم کی بدبختی تین چیزوں میں ہے بدزبان و بدسلوک بیوی، پریشان کن رہائش اور ضرر رساں (نقصان دہ) سواری۔‘‘ مزید برآں اسلام نے فطری ذوق جمال اور دنیوی محاسن سے یکسر چشم پوشی نہیں کی لیکن اس میں شرط یہ رکھی کہ دنیوی عیش و عشرت بذات خود غایت و مقصد اولین نہ بنا لی جائے۔ کیونکہ یہ تو اخروی زندگی کا ذریعہ ہے جو اس سے پہلے ہمیں حاصل ہو چکا ہے اور اسی بات پر تنبیہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبردار کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ الَّذِیْنَ یَسْتَحِبُّوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ یَبْغُوْنَہَا عِوَجًا اُولٰٓئِکَ فِیْ ضَلٰلٍ بَعِیْدٍo﴾ (ابراہیم: ۳) ’’وہ جو دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں پسند کرتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہیں ، یہ لوگ بہت دور کی گمراہی میں ہیں ۔‘‘ (۳) حکمت کے ساتھ بنیادی مقاصد کا حصول: انسان اپنے بنیادی مقاصد حکمت کے ساتھ حاصل کرے چاہے یہ اس کے بنیادی
[1] علم الاخلاق الاسلامی د/مقداد یالجن نقلا مسند احمد، ج ۱، ص: ۱۶۸۔