کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 75
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُوْنِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدِمُوْا عَلَیْہَا وَ إِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَ أَنْتُمْ بِہَا فَلَا تَخْرُجُوْا مِنْہَا)) ’’جب تم کسی سرزمین کے بارے میں سنو کہ وہاں طاعون پھیل چکا ہے تو اس سرزمین کی طرف مت جاؤ اور جب کسی سرزمین پر آ جائے اور تم وہاں موجود ہو تو وہاں سے (موت کے ڈر سے) مت نکلو۔‘‘[1] ب:… انسانی طبیعت کے مطابق حکمت اور اعتدال کے ساتھ روحانی اور مادی حاجات سے استفادہ روحانی حاجات عبادات اللہ خالق و رزاق کی یاد وغیرہ جیسے امور کے ذریعے تقویت پکڑتی ہیں جس سے انسان اللہ تعالیٰ کے اس کے لیے لکھی ہوئی تقدیر پر راضی اور مطمئن رہتا ہے۔ چاہے وہ دنیاوی ہو یا اخروی ہو۔ البتہ مادی اور حسی حاجات دائمی سعادت مند زندگی کے لیے ضروری ہیں اور وہ تمام پاکیزہ اور حلال اشیئا کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہوتی ہیں ۔ جیسے خورد و نوش، ملابس و مساکن وغیرہ۔ نیز ان اشیاء میں اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء سے مکمل طور پر اجتناب کرنا ضروری ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے نکاح حلال کیا اور زنا حرام کیا ہے۔ تجارت حلال کی ہے اور سود حرام کر دیا ہے وغیرہ۔ یہ محسوس امور کی مثالیں ہیں ۔ اسی بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَo قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ ہِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَo قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بَغَیْرِ الْحَقَّ وَ اَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ
[1] المصدر السابق، ص: ۳۸۵، حدیث: ۱۴۸۵۔