کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 74
جب وہ اپنے اخلاقی اعمال ادا کر رہا ہو۔ کیونکہ اسے اللہ کی جانب سے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ اخلاق اسلام کا ہدف اول اللہ کی رضا ہے نہ کہ اس کے علاوہ کسی اور کی رضا یا محض سعادت کا حصول ہے۔ اس طرح انسانی سلوک عبادت کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے اور اسے اس کا اجر ملتا ہے۔[1] چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا یَصَابُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَّ لَا وَصَبٍ وَّ لَا ہَمٍّ وَ لَا حَزَنٍ وَ لَا أَذًی وَ لَا غَمٌّ حَتَّی الشَّوْکَۃُ یُشَاکُہَا اِلَّا کَفَّرَ اللّٰہُ بِہَا خَطَایَاہُ)) [2] ’’جب کسی مسلمان کو پریشانی، صدمہ، دکھ، غم، تکلیف، مصیبت یا بیماری پہنچتی ہے حتیٰ کہ جب اسے کوئی کانٹا چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے اوامر اور ان کی تنفیذ و تطبیق سے راضی ایسے نفس کو اللہ تعالیٰ قناعت عطا کرتا ہے اور دنیا و آخرت میں اسے حسن ثواب دیتا ہے۔ (۲) امراض سے سلامتی: سلامتی اور کامل صحت اخلاق اسلامی کا اولین مقصد ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے: ا:… امراض سے احتیاط و پرہیز:… اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر چیز میں نظافت و طہارت کا اہتمام ضروری قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلطَّہُوْرُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ)) ’’طہارت نصف ایمان ہے۔‘‘[3]
[1] علم الاخلاق الاسلامی د/مقداد یالجن، ص: ۸۴۔ [2] ہدیۃ الباری فی ترتیب احادیث البخاری، ج ۱، ص: ۱۲۳ نقلا عن علم الاخلاق الاسلامی، ص ۸۴۔ [3] مختصر صحیح مسلم للالبانی، ص: ۴۱، حدیث: ۱۲۰۔