کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 72
((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ بِحِکْمَتِہٖ وَ جَلَالِہٖ جَعَلَ الرَّوْحَ وَ الْفَرْحَ فِی الرَّضٰی وَ الْیَقِیْنَ وَ جَعَلَ الْغَمَّ وَ الْحَزَنَ فِی الشَّکِّ وَ السَّخَطِ)) [1] ’’بے شک اللہ تعالیٰ عزوجل نے اپنی حکمت و جلالت کے ساتھ راحت و فرحت کو رضا اور یقین کے ساتھ اور غم اور دکھ کو شک اور ناراضی کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔‘‘ عقل کی صحت اور سعادت کے لیے اسلام نے دو وسیلے بنائے ہیں ۔ پہلے کا تعلق پرہیز سے ہے اور دوسرے کا تعلق نمو و ارتقاء سے ہے۔ چنانچہ اسلام نے پہلے وسیلے کے طور پر عقل کے لیے ہر مضر اور اس کے ادراک میں مخل چیز کو حرام کر دیا ہے۔ جیسے شراب اور دیگر منشیات وغیرہ۔ جہاں تک دوسرے وسیلے یعنی نمو و ارتقاء کا تعلق ہے تو اسلام اپنے پیرو کاروں سے کائنات، زندگی اور غیب کے اسرار میں غور و فکر کا مطالبہ کرتا ہے۔[2] چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَفِیْ اَنفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَo﴾ (الذاریات: ۲۱) ’’اور تمہارے نفسوں میں بھی، تو کیا تم نہیں دیکھتے؟‘‘ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَفَلَمْ یَنْظُرُوْا اِِلَی السَّمَآئِ فَوْقَہُمْ کَیْفَ بَنَیْنَاہَا وَزَیَّنَّاہَا وَمَا لَہَا مِنْ فُرُوْجٍo وَالْاَرْضَ مَدَدْنَاہَا وَاَلْقَیْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ وَاَنْبَتْنَا فِیْہَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ بَہِیجٍo تَبْصِرَۃً وَّذِکْرٰی لِکُلِّ عَبْدٍ مُّنِیبٍo﴾ (قٓ: ۶-۸) ’’تو کیا انھوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے کیسے اسے بنایا اور اسے سجایا اور اس میں کوئی درزیں نہیں ہیں ۔ اور زمین، ہم نے اسے پھیلایا اور اس میں گڑے ہوئے پہاڑ رکھے اور اس میں خوبی والی ہر قسم اگائی ۔ ہر اس
[1] اسے طبرانی نے منتخب کنز العمال سے روایت کیا ہے۔ مسند احمد کے حاشیے پر دیکھیں : ج ۱، ص: ۲۵۷۔ [2] علم الاخلاق الاسلامی د/مقداد بالجن، ص: ۶۸۔