کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 71
کی اتباع کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔[1] ج:… سعادت کے ذریعے انسان کو اپنے طبعی میلانات اور حسی غرائر کے کامیاب ہونے کا شعور حاصل ہوتا ہے اور ان لوگوں کے نزدیک میلانات و رغبات سے مراد دنیاوی و حسی لذات جو فوراً حاصل ہو جائیں یا جو لذات بتدریج حاصل ہوں اگرچہ وہ متاخر ہوں یا ترقی یافتہ شکل میں ہوں ۔ دوم: اسلام میں اخلاق کی غرض و غایت: اسلام میں انسانی زندگی دراصل ایک اخلاقی نظم میں پروئی ہوئی ہے اور یہ نظام انسان کی دنیوی و اخروی بھلائی کے لیے بنایا گیا ہے اور یہ کہ اس زندگی میں حقیقی سعادت، رونق، راحت و طمانینت کا وہ دائمی شعور و احساس ہے جو اسے اپنی ذات کی بھلائی کے اساس اور اپنی زندگی کی بھلائی اور اپنے انجام کی بھلائی کے نتیجے میں ملا ہے۔ ذیل میں اس کی تفصیل ہے۔[2] ذاتی بھلائی کی خواہش عقل، نفس اور عقیدہ کی صحت و سلامتی پر موقوف ہے۔ صحت عقیدہ کی دلیل یہ ہے کہ اسلام واضح عقلی دلائل لایا ہے جو عقیدہ کے صدق اور اس کی صحت کی اس طرح تاکید کرتے ہیں کہ اس کی صحت و سلامتی میں متکبر اور ضعیف العقل انسان کے علاوہ کوئی شک کر ہی نہیں سکتا۔ اسی لیے اسلام انسان کی زندگی کے لیے ایسا نظام لایا ہے۔ جو عقیدہ کے صدق اور اس کی صحت کی اس طرح تاکید کرتے ہیں کہ اس کی صحت و سلامتی میں متکبر اور ضعیف العقل انسان کے علاوہ کوئی شک کر ہی نہیں سکتا۔ اسی لیے اسلام انسان کی زندگی کے لیے ایسا نظام لایا ہے جس میں شخصی کردار کو مکمل طور پر متعین اور عقیدہ کے ساتھ مربوط کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ عقیدہ کے فرد کی سعادت کے ساتھ مربوط ہونے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] المصدر السابق، ص: ۶۲۔ [2] علم الاخلاق الاسلامی د/مقداد یالجن، ص: ۶۵۔