کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 70
اس اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ پہلی رائے والے کہتے ہیں کسی چیز کی غایت سے مراد اس کے لیے وسیلہ اور ذریعہ کا ہونا ہے اور یہ مفہوم اخلاق کو ہر قسم کے تقدس سے خالی بناتا ہے۔ جس کا معنی یہ ہو گا کہ اخلاق کے ساتھ التزام ضروری نہیں ۔ اسی وجہ سے دوسری رائے والے اخلاق کی اس غایت کے انکاری ہیں ۔ البتہ پہلی رائے والے اخلاق کی غایت ہونے کا معنی یہ نہیں کہ اس کے وسیلے کا التزام ضروری ہے۔ بلکہ اس کے برعکس ایک گروہ یہ بھی کہتا ہے کہ غایت اور وسیلہ لازم و ملزوم ہیں اور دونوں مقدس تھیں اس لیے دونوں کا التزام ضروری ہے۔ تاہم درج بالا دونوں گروہوں کے نزدیک اخلاق سعادت کی طرف لے جاتا ہے۔ چاہے سعادت اس کی غایت ہو یا اخلاق طبعی طور پر سعادت کے حال کی طرف لے جائے۔[1] اخلاق سعادت کی طرف لے جاتا ہے اس رائے کے مؤیدین کے متعدد نکتۂ نظر ہیں : الف:… سعادت انسانی محض روحانی ہے اور یہ اسی صورت میں مکمل ہوتی ہے۔ جب انسان ہر قسم کے مادی روابط اور شر انگیز رجحانات سے پاک ہو اور روحانی طور پر اس کی مکمل تطہیر و تزکیہ ہو چکے ہوں اور وہ روحانیت پر مکمل عمل پیرا ہو۔ اس طرح اس کی روح جسم کی مالک بن جاتی ہے اور جسم کو اپنی مرضی سے چلاتی ہے اور انسان کو جسمانی قیود و خواہشات و رغبات سے مکمل طور پر آزاد کر دیتی ہے۔ اسی لیے جسم کو اہمیت دینے کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ اگر جسم کو اہمیت دی جائے تو یہ بات مادی روابط کی تقویت کا باعث بنتی ہے اور پھر مادہ روح پر غالب آ جاتا ہے اور وہ بدبخت بنا دیتا ہے۔[2] خاص طور پر جسم کے فنا ہونے کے بعد روح باقی رہ جانے والی حقیقت ہے۔ ب:… یہ کہ سعادت تمام حالات میں دائمی سرور کے شعور کو کہتے ہیں جو عقل کے حکم کے تابع سلوک کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے اور جن فضائل کا عقل حکم کرتی ہے اور اس کے نظم
[1] علم الاخلاق الاسلامی د/مقداد یالجن، ص: ۵۸۔ [2] علم الاخلاق الاسلامی د/مقداد یالجن، ص: ۵۹۔