کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 68
۱۔ حالت ضرورت: خواہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کے استعمال کے وقت ہو یا بذات خود ایمان پر زد پڑتی ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo﴾ (المائدۃ: ۳) ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا، پھر جو شخص بھوک کی کسی صورت میں مجبور کر دیا جائے، اس حال میں کہ کسی گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو تو بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘ ۲۔ گناہ گار جب توبہ کرتا ہے: چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذَنُوْبِہِمْ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَ ہُمْ یَعْلَمُوْنَo اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُہُمْ مَّغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَo﴾ (آل عمران: ۱۳۵-۱۳۶) ’’اور وہ لوگ کہ جب کوئی بے حیائی کرتے ہیں ، یا اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں ، پس اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا اور کون گناہ بخشتا ہے؟ اور انھوں نے جو کیا اس پر اصرار نہیں کرتے، جب کہ وہ جانتے ہوں ۔یہ لوگ ہیں جن کی جزا ان کے رب کی طرف سے بڑی بخشش اور