کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 67
((رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثٍ: اَلنَّائِمُ حَتّٰی یَسْتَیْقِظَ، وَ عَنِ الْمَجْنُوْنِ حَتّٰی یَبْرَأَ، وَ عَنِ الصَّبِيِّ حَتّٰی یُکْبِرَ)) [1] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین قسم کے لوگوں سے قلم (تکلیف) اٹھا لیا گیا: سویا ہوا جب تک بیدار نہ ہو جائے، پاگل جب تک شفا نہ پالے اور بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے۔‘‘ ۲۔ فعل کیسا ہو؟… انسان کا محاسبہ صرف اس کے ارادی افعال پر ہو گا۔ اس کے علاوہ مثلاً دل میں آنے والے خیالات، وسوسے، میلانات و رغبات و خواہشات وغیرہ اور طبعی افعال میں نہ تو انسان مکلف ہوتا ہے اور نہ اس کا محاسبہ ہو گا۔ اسلام میں واجب خلقی کے ممکن ہونے اور اس کی ادائیگی ہے آسان ہونے کے متعدد دلائل ہیں ۔[2] اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ﴾ (البقرۃ: ۱۸۵) ’’اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ﴾ (الحج: ۷۸) ’’اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْکُمْ﴾ (النساء: ۲۸) ’’اللہ چاہتا ہے کہ تم سے (بوجھ) ہلکا کرے۔‘‘ مذکورہ بالا قرآنی سہولت واجب کی ادائیگی کے وقت دو حالتوں میں نمایاں ہوتی ہے۔[3]
[1] صحیح بخاری، کتاب الحدود، باب: ۱۔ مسند احمد، ج ۶، ص: ۱۰۰۔ [2] الاخلاق و السیاسۃ فی الفکر د/ممدوح الاعربی، ص: ۲۱۲-۲۱۳۔ [3] الاخلاق الفاضلۃ د/مقداد یالجن، ص: ۲۴۲۔