کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 66
کیفیت پیدا نہیں کر سکتا تو پھر وہ تجھے یقینا دیکھ رہا ہے۔‘‘ گویا اسلامی اخلاق ہی وہ قوت ہیں جو انسان اس کی تمام پہلوؤ ں میں اسلامی اخلاق کی تعلیمات نمایاں رہیں اور اس معاملے میں اخلاق کا معیار عالی اور غالب ہو گا کہ ایک مسلمان اپنی زندگی، اپنے وجود اور اپنے رزق و کسب کے تمام پہلوؤ ں میں اسلامی اخلاق کو غالب رکھے گا اور ہر وقت انہیں فوقیت دے گا۔ کیونکہ یہی اخلاق ہی روز آخر اس کی نیک جزا کے سبب بنیں گے اور یہ اخلاق واجب کرنے والی ذات یعنی اللہ تعالیٰ انسان کی دنیا و آخرت کی تمام مصلحتوں کا موجد و رب ہے۔[1] ب: واجب خلقی پر عمل کرنے کی شروط: اسلام میں ہر انسان حسب استطاعت اپنے واجبات کو ادا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا﴾ (البقرۃ: ۲۸۶) ’’اللہ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی گنجائش کے مطابق۔‘‘ اس واجب کی ادائیگی کی قدرت و امکان کا تعلق فاعل اور فعل دونوں سے ہوتا ہے۔ ۱۔ فاعل کا فعل پر قادر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اس کے علم میں ہو وہ اسے بالارادہ کرے اور وہ اس پر قادر بھی ہو۔ اس کے علاوہ وہ کسی عمل کا ذمہ دار نہیں ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ((رُفِعَ عَنْ اُمَّتِی الْخَطَا وَ النِّسْیَانُ وَ مَا اسْتُکْرِہُوْا عَلَیْہِ)) [2] ’’میری امت سے خطا، نسیان اور مجبوری اٹھا لی گئیں ۔‘‘ (یعنی ان تینوں حالتوں میں کیے گئے عمل پر ان کا محاسبہ نہیں ہو گا)۔ (ظفر)
[1] الاخلاق و معیارہا …، د/حمدی عبدالعال، ص: ۱۳۰۔ علم الاخلاق الاسلامیہ د/مقداد یالجن، ص: ۲۳۹۔ الاخلاق و السیاسۃ فی الفکر، د/ ممدوح عربی، ص: ۱۴-۲۱۳۔ [2] سنن ابن ماجہ، کتاب الطلاق، باب: ۱۶۔ سنن کبری للبیہقی۔