کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 65
کے ساتھ تعلقات کا معاملہ ہو اور ان دونوں صورتوں سے پہلے خواہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کا معاملہ ہو۔[1] اس معنی کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے ذریعے ہوتی ہے: ((إِنَّ لِرَبِّکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَلِأَہْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا فَأَعْطِ کُلَّ ذِی حَقٍّ حَقَّہُ)) [2] ’’بے شک تجھ پر تیرے رب کا حق ہے اور تیرے نفس کا تجھ پر حق ہے اور تیرے اہل و عیال کا تجھ پر حق ہے۔ پس تو ہر حق دار کو اس کا حق ادا کر۔‘‘ اساسی واجبات کے متعلقہ اس موافقت کے دو درجے ہیں : ۱۔ ادائیگی کا کم تر درجہ: وہ یہ ہے کہ جو عمل بھی کیا جائے اس کے دوران واجب خلقی میں خلل و نقص ضرور ہوتا ہے۔ اس کی مثبت مثال فرض نماز اور واجب زکوٰۃ ہے۔ جو نصاب میں ہو کہ ان کی ادائیگی میں انسان سے کمی کوتاہی ضرور ہو جاتی ہے اور منفی مثال حرام امور ہیں ۔ جیسے کبیرہ گناہ اور سود وغیرہ کہ ان سے اجتناب میں بھی عام انسانوں سے غفلت ہو جاتی ہے۔ ۲۔ درجۃ الاحسان: اس سے مراد اس طریقہ کی ادائیگی کہ واجب اور فرائض کو اعلیٰ درجہ کے مطابق ادا کیا جائے تاہم ان میں غلو اورمبالغہ نہ کیا جائے۔ جیسے سب نفلی عبادات اور اعلانہ اور مخفی حالت میں اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور علم میں ہونے کا یقین۔ جو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق: ((اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ، فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ)) [3] ’’تو اللہ کی عبادت اس طرح کر گویا اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اپنے اندر یہ
[1] علم الاخلاق الاسلامیۃ، د/مقداد یالجن، ص: ۲۴۹۔ الاخلاق و السیاسۃ فی الفکر، ص: ۲۱۴۔ [2] صحیح البخاری، کتاب الصوم، رقم: ۵۱، و الادب، رقم: ۸۶۔ سنن الترمذی فی الزہد: ۶۴۔ [3] صحیح بخاری، حدیث احسان کے نام سے مشہور ہے۔