کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 64
کریں ۔ اس اعتبار سے کہ یہ واجب بہت ہی غالی اور نفیس ہے۔ شخصی اور ذاتی حیثیت سے پاک ہے کیونکہ اگر معاملہ ہر انسان کی رغبت اور خواہش کے مطابق طے ہونے دیا جائے تو مختلف حالات اور کیفیات میں ہمارا موقف تبدیل ہوتا رہے اور یہ صورت حال ہر دو اشخاص کے درمیان جب واقع ہونے لگے حالانکہ واجب سب کے لیے ایک ہی ہو تو ہم لازماً منافقت اور بداخلاقی کا شکار ہو جائیں ۔ درج بالا معنی کی تاکید اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعے بخوبی ہو رہی ہے: ﴿ یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی﴾ (المائدۃ: ۸) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر خوب قائم رہنے والے، انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں ہرگز اس بات کا مجرم نہ بنا دے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ ﴿ یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَo کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَo﴾ (الصف: ۲-۳) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے۔ اللہ کے نزدیک ناراض ہونے کے اعتبار سے بڑی بات ہے کہ تم وہ کہو جو تم نہیں کرتے۔ ‘‘ ۳۔ واجب اخلاقی کی موافقت ہر انسان کی اخلاقی طاقت کے ساتھ مربوط ہے۔ اداء الواجبات کا جتنا کوئی التزام کرے گا اور جتنی تندہی سے اپنا واجب ادا کرے گا اس کا واجب اخلاقی کمال کے اسی قدر موافقت ہو گا۔ اس کے برعکس ہم کمزور التزام والے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ ان کا واجب اخلاقی کمال کے درجے سے اتنا ہی نیچے ہوتا ہے۔ جیسا کہ اخلاق سلیمہ سے انسان کی شخصیت نکھرتی ہے۔ جو وہ اپنے تعلقات میں پیش کرتا ہے۔ چاہے وہ تعلق انسان کے اپنے جسم اور روح کے مابین ہو یا دوسرے لوگوں