کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 58
اس کی تاکید کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّۃِ وَاِنَّمَا لِامْرِیئٍ مَّا نَوٰی فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہٗ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُولِہٖ فَہِجْرَتُہٗ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُولِہٖ وَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہٗ لِدُنْیَا یُصِیبُہَا اَوِ امْرَاَۃٍ یَتَزَوَّجُہَا فَہِجْرَتُہٗ اِلَی مَا ہَاجَرَ اِلَیْہِ۔)) ’’بے شک اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے اور ہر آدمی کو اس کی نیت کے مطابق جزا ملے گی۔ پس جس کسی کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لیے ہوئی تو اس کی ہجرت کا اجر اس کو اللہ اور اس کے رسول کی رضا والا ملے گا اور جس کسی کی ہجرت دنیا کے مال و متاع یا کسی عورت سے شادی کے لیے تھی تو ایسے اس کی ہجرت کی جزا اس کی نیت کے مطابق ملے گی۔‘‘ [1] اس بنیاد پر نیت پر عمل واجب یا مباح کی اساس ہے لیکن معاصی اور مخرمات کا حکم نیک نیتی کی وجہ سے تبدیل نہ ہوگا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی مال حرام سے مسجد بنا دے۔ [2] جہاں تک واجبات اور خاص کر واجب دینی کے ساتھ نیت کے ربط کا تعلق ہے۔ تو یہ واجب ادا کرنے کے لیے نیت شرط ہے، اور اس لیے اس واجب کسی ادائیگی میں شرط بھی ہے کہ وہ خالصتاً بوجہ اللہ تعالیٰ کسی غیر اللہ کی طرف اس عمل کے ذریعہ بوجہ نہ ہو اور یہ مرتبہ اخلاص اور کمال اخلاق کی انتہاء کا ہے۔ اس مفہوم کی تاکید کے لیے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پہ نحو کرنا چاہیے۔ ﴿ وَمَا اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ﴾ (البینۃ: ۵) ’’اور انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں ، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے۔‘‘
[1] مختصر صحیح مسلم للالبانی، ص: ۲۸۲، حدیث: ۱۰۸۰۔ [2] الاخلاق و معیارہا بین الوضعیۃ والدین، د/ حمدی عبدالعال، ص: ۱۱۶، الاخلاق الفاضل، د/ مقداد یالجن، ص: ۲۳۷۔