کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 57
ہیں ۔ یہاں سے اس عنصر ’’توکل‘‘ کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ گویا وہ قوت یقین، اللہ پر اعتماد عمل میں خلوص، اس عمل کے نتیجے میں ملنے والے ثمر اور صفائی نفس کو پرکھنے کا معیار ہے۔ اس مفہوم کی تاکید کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًاo وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ﴾ (الطلاق: ۲۔۳) ’’اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا۔ اور اسے رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا اور جو کوئی اللہ پر بھروسا کرے تو وہ اسے کافی ہے۔‘‘ اور توکل اور ایمان کے مربوط ہونے کی وضاحت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں آئی ہے: ﴿ وَ عَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo﴾ (المائدہ: ۲۳) ’’اور اللہ ہی پر پس بھروسا کرو، اگر تم مومن ہو۔‘‘ اور اللہ پر توکل کرنے کا نتیجہ اللہ یوں بیان کرتا ہے: ﴿ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَo﴾ (آل عمران: ۱۵۹) ’’بے شک اللہ بھروسا کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ ج۔ النیّۃ: اعتقاد کا یہ تیسرا عنصر ہے۔ اس سے مراد دل کا اختیار ہے کہ وہ کسی عمل کو اختیار کرے اور کسی عمل کو چھوڑ دے، اور جسے اختیار کرے اسے پختہ عزم کے ساتھ اختیار کرے اس کے درمیان اور اس عمل کے نفاذ کے درمیان ارادے سے کوئی چیز حائل نہ ہو البتہ بلا اردہ ممکن ہے، اور شریعت اسلامیہ میں دراصل اسی بنیاد پر عمل کی قیمت اور اس کے نتائج کا دارو مدار ہے۔ اگر عمل مذکور سے اللہ کی رضا مقصود ہوگی تو وہ عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہاں حسن اور مقبول ہوگا اور اگر وہ عمل اللہ کی رضا کے لیے نہیں ہوگا تو وہ اللہ کے ہاں نہ حسن ہوگا اور نہ مقبول ہوگا۔ [1]
[1] الاخلاق و معیار ہابین الوضعیۃ والدین: درحمد عبدالعال، ص: ۱۱۳۔