کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 56
تعالیٰ پر چھوڑ دیتا ہے۔ اسی لیے قضاء قدر پر ایمان، اور انسان کی سعی و اجتہاد اور اس کا اللہ پر یقین و اعتقاد پھر اپنے معاملے کو اس کے حوالے کر دینے سے اس کا اصل مقصد ہر قسم کی بھلائی کی صورت میں نکلتا ہے۔ [1] چنانچہ جس شخص کی اونٹنی گم ہو گئی تھی اس نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اس کی شکایت کی لیکن اس نے اس کا گھٹنا ن نہیں باندھا تھا اور اسے کھلا چھوڑ دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو اس کے پاؤں میں رسی ڈال دو اور اللہ کے بھروسے پر اسے چھوڑ دو۔‘‘ [2] اسی وجہ سے توکل ہر مسلمان کو ایک متوازن نفسیاتی موقف عطاء کرتا ہے جسے اس کی امیدوں کے مطابق نتائج ملنے کا اعتقاد ہوتا ہے اس کے برعکس جو لوگ اللہ پر توکل نہیں کرتے انہیں ان کی محنتوں کے نتائج کے بارے میں بے شک اور خوف ہوتا ہے وہ ایک بھیانک نفسیاتی قلق اور صدمے سے دوچار ہوتے ہیں ۔ اور ان کا ہر معاملہ مایوسی اور غرور کے درمیان ہوتا ہے۔ اگر ان کی محنت نا کام ہو جائے تو وہ مکمل طور پر مایوس ہو کر صدمے کی کیفیت سے بمشکل نکلتے ہیں اور اگر انہیں کامیابی مل جائے تو وہ غرور و تکبر کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ان کی ایسی حالت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِِنَّ الْاِِنسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًاo اِِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًاo وَاِِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًاo اِِلَّا الْمُصَلِّینَo﴾ (المعارج: ۱۹۔ ۲۲) ’’بلاشبہ انسان تھڑدلا بنایا گیا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جانے والا ہے۔ اور جب اسے بھلائی ملتی ہے تو بہت روکنے والا ہے۔ نماز ادا کرنے والوں کے۔‘‘ لہٰذا جو لوگ اپنے خالق پر توکل کرتے ہیں وہ ’’مُصَلِّیْنَ‘‘ کے زمرے میں آ جاتے
[1] الاخلاق و معیارہا بین الوضعیۃ والدین، در حمدی عبدالعال، ص: ۱۰۸۔ [2] یہ مختصر حدیث کتاب کے ص: ۴۴ پر ہے۔ سنن ترمذی، کتاب القیامۃ، حدیث: ۶۰۔