کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 53
اور اللہ تعالیٰ جو اسماء صفات اپنے لیے ثابت کی ہیں یا اس کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اسماء و صفات ثابت کیے ہیں جو کتاب و سنت صحیحہ میں وارد ہیں ۔ ان پر ان کے الفاظ یا معانی میں تحریف کے بغیر اور ان کو معطل کیے بغیر کہ اللہ عزوجل سے ان سب کی یا ان میں سے کچھ کی نفی کی جائے اور ان کی کیفیت بیان کیے بغیر یہ کہ ان کی حقیقت کی تحریر کی جائے۔ یا اس کے لیے کوئی خالص کیفیت بیان کی جائے اور مخلوق کی صفات کے ساتھ اللہ عزوجل کی صفات کو تشبیہ دیے بغیر ایمان لانا اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿ قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی﴾ (بنی اسرائیل: ۱۱۰) ’’کہہ دے اللہ کو پکارو، یا رحمان کو پکارو، تم جس کو بھی پکارو گے سو یہ بہترین نام اسی کے ہیں ۔‘‘ اور ارشاد فرمایا: ﴿ وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا﴾ (الاعراف: ۱۸۰) ’’اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں ، سو اسے ان کے ساتھ پکارو۔‘‘ اور ارشاد فرمایا: ﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُo﴾ (الشوریٰ: ۱۱) ’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘ اور ارشاد فرمایا: ﴿ فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ﴾ (النحل: ۷۴) ’’ پس اللہ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو۔‘‘ [1] اور ہم یہاں توحید اور اخلاق کے باہمی روابط کی تحقیق کریں گے۔ چنانچہ اسلامی اخلاق میں توحید کا وہی مقام ہے جو دائرے کے اندر وسطی نقطہ کا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اس باب میں
[1] کتاب الایمان، ارکانہ، حَقیقۃ، نواقضہ، لمجلد نعیم یاسین، مکہ المکرمۃ، الحجون، مکتبۃ الثقافہ، ص: ۹ تا ۱۹۔