کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 44
اللہ کے طریقے کو پھیر دینے کی کوئی صورت پائے گا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ سُنَّۃَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنْ رُّسُلِنَا وَ لَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیْلًاo﴾ (الاسراء: ۷۷) ’’ان کے طریقے (کی مانند) جنھیں ہم نے تجھ سے پہلے اپنے رسولوں میں سے بھیجا اور تو ہمارے طریقے میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا۔‘‘ چونکہ الٰہی نظم مکمل ترین ہے۔ اپنے اصولوں کے لحاظ سے ثابت ہے اپنی تعلیم میں راسخ ہے اور ہمیں شرع حنیف کے اصول اور اس کی محتویات کو اخلاقی تعالیم و مبادی کے درمیان راسطہ تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اس کے برعکس وضعی نظام کے اصول و مبادی میں کسی قسم کا ثبات یا ربط نہیں ۔ وقتاً فوقتاً نئے نئے نظام سامنے آتے رہتے ہیں اور سابقہ نظاموں کے قواعد و اصول بدلتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان سے بہتری کی امید رکھنے والا شخص شک میں پڑ جاتا ہے کہ اس نظام کے مفاہیم و افکار میں اس قدر تناقض کیوں ہے؟ اس قسم کے تنافض و تغیر سے محفوظ تو صرف اللہ تعالیٰ کی شریعت ہی ہے کہ اللہ العلی القدیر نے جس کے مبادی اور اہداف مقرر کر دئیے ہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍo﴾ (آل عمران: ۱۰۱) ’’اور جو شخص اللہ کو مضبوطی سے پکڑلے تو یقینا اسے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی گئی۔‘‘ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَ مَنْ یُّسْلِمْ وَجْہَہٗٓ اِلَی اللّٰہِ وَ ہُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی وَ اِلَی اللّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِo﴾ (لقمان: ۲۲)