کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 42
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَعَدَ اللّٰہِ حَقًّا وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلًاo﴾ (النساء: ۱۲۲) ’’اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ بات میں کون سچا ہے۔‘‘ اخلاقی پہلو سے صدق سے مراد یہ ہے کہ علم و عمل ہو یا کوئی بھی موضوع بالذات ہو اس میں انسان کا کردار حقیقت و صدق پر استوار ہو اور اس کی تین بنیادیں ہیں ۔[1] ۱۔ المثل العلیا: سب سے اعلیٰ نمونہ اور اس کی مثال اللہ کے پاک ناموں اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا سے حاصل ہوتی ہے کیونکہ اللہ کے پاک ناموں کے عظیم فضائل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکارم اخلاق کے زیور سے آراستہ ہونے کا ہمیں بخوبی علم ہے۔ اللہ کے پاک نام اسلامی اخلاق پر دلالت کرتے ہیں جیسے بر، صدق، عفو و رحمت و رأفت وغیرہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی اقتدا کے لیے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو سامنے رکھنا چاہیے: ﴿ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًاo﴾ (الاحزاب: ۲۱) ’’بلاشبہ یقینا تمھارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔‘‘ ۲۔ علم غیب پر یقین ہونا: غیب سے متعلق جتنے بھی اسرار ہیں سب پر ایمان لانا واجب ہے۔ کیونکہ یقین و ایمان کی اصل یہی ہے۔ جو اخلاق اور عقیدہ کے درمیان رابطہ ہے۔ ۳۔ سچی بصیرت: تاہم یہ درجہ اور قوت میں مختلف ہوتی ہے۔ کیونکہ ہر انسان دوسرے انسان کی نسبت صدق و یقین اور توکل میں مختلف ہوتا ہے۔ گویا یہ انسان کا ذاتی وصف ہے۔ جس کے ساتھ
[1] الاخلاق الفاضلۃ، د/ حسن شرقاوی، ص: ۱۰۰۔