کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 40
وہ سابقہ امتوں کے حالات کی روشنی میں ہوں یا کائنات کے رازوں اور اللہ تعالیٰ کی حکمت و عدل پر مبنی ہوں ۔[1] چنانچہ شریعت اسلامیہ سب لوگوں کو خطاب کے دوران اپنے احکام کا بتدریج اعلان کرتی ہے۔ کیونکہ وہ اللہ سبحانہ حق تعالیٰ کی جانب سے سچے احکام ہوتے ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ وَّ ہُدًی وَّ رَحْمَۃً وَّ بُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَo﴾ (النحل: ۸۹) ’’اور ہم نے تجھ پر یہ کتاب نازل کی، اس حال میں کہ ہر چیز کا واضح بیان ہے اور فرماں برداروں کے لیے ہدایت اور رحمت اور خوش خبری ہے۔‘‘ (دوم) الکمال: شریعت اسلامیہ اپنے کمال منہج کی وجہ سے علیحدہ پہچان رکھتی ہے چونکہ اس میں نہ کوئی ابہام ہے اور نہ کوئی نقص ہے یہ ہر لحاظ سے ایک مکمل شریعت ہے۔ لیکن انسانوں کے وضع کردہ نظام ناقص ہوتے ہیں کیونکہ ان نظاموں کے بنانے والے خود ناقص العقل ہوتے ہیں اسی طرح جو بھی نظام وضع کیا جاتا ہے وہ اس زمانے کے لحاظ سے تو کسی قدر کارآمد ہوتا ہے لیکن جونہی زمانہ بدلتا ہے اور حالات تبدیل ہوتے ہیں یا انسانوں کے اپنے تجربے اور تحقیقات تبدیل ہوتی ہیں پہلا نظام ناقص بن جاتا ہے۔ اسی طرح وضعی قانون میں جس قدر بھی عدل و انصاف، مظلوم و ضعیف کی نصرت اور اتباع حق کے جس قدر بھی دعوے کیے جائیں اور نعرے لگائے جائیں وہ اپنے منشور کی تکمیل میں ناکام رہتے ہیں ۔[2] تاہم اسلامی شریعت ہر پہلو سے مکمل ہے۔ دین و دنیا کے تمام معاملات کا حل قرآن و حدیث میں واضح طور پر موجود ہے۔ چونکہ اسلامی شریعت ہر زمانے اور ہر مقام کے لیے مفید
[1] الاخلاق الفاضلۃ، د/حسن شرقاوی، ص: ۱۰۵ و بعد۔ [2] الاخلاق الافاضلۃ، د/ حسن شرقاوی، ص: ۹۲ و بعد۔