کتاب: اخلاق و آداب - صفحہ 35
مسلمان اصولی فلسفیوں کا نظریہ: عقلی و روحانی پہلوؤ ں سمیت یہاں متعدد پہلو ہیں لیکن اسلامی فلاسفروں کے ہاں صرف روحانی پہلو اہم ہے کیونکہ یہ عقل و روح دونوں کو جمع کرتا ہے۔ اس کی وضاحت امام غزالی نے اخلاق پر بحث کرتے ہوئے کی۔ چنانچہ اس کی تحقیق کے مطابق نفس عقل کے تابع ہے۔ باطنی تطہیر اور روحانی تزکیہ اور اسے فضائل خلقیہ سے آراستہ کرنے کے متعلق اہل تصوف نے دقیق و لطیف تحلیلات کی ہیں ۔ سابقہ توجیہ کے مطابق غزالی رحمہ اللہ نے خُلق کی تعریف یہ کی ہے: ’’وہ نفس کے اندر راسخ ایک ہیئت ہے اس سے عقلی و شرعی اعتبار سے افعال محمودہ صادر ہوں تو اس ہیئت کو خلق حسن کہتے ہیں اور اگر اس ہیئت سے افعال قبیحہ صادر ہوں تو اسے خلق سیٔ (برے اخلاق) کہا جاتا ہے کہ برے خلق کے صادر ہونے کا مصدر وہی ہے۔‘‘[1] اس ہیئت کو راسخہ اس لیے کہا گیا کیونکہ اگر کوئی شخص کسی عارضی تحریک سے نادر و نایاب طور پر مال خرچ کرے گا تو اسے سخی نہیں کہا جائے گا جب تک سخاوت اس کے نفس میں راسخ نہ ہو۔ اسی طرح غیض و غضب پر جو شخص تکلفاً عارضی طور پر قابو پا لے اس کو خلق حلم سے متصف شخص نہیں کہا جائے گا۔ گویا خلق محض فعل کا نام نہیں ۔ اکثر ایسے ہوتا ہے کہ ایک طبعی طور پر سخی شخص مال خرچ نہیں کرتا کیونکہ اس کے پاس مال نہیں ہوتا یا کسی اور رکاوٹ کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر پاتا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص طبعی طور پر بخیل ہوتا ہے لیکن وہ ریا کاری یا کسی دوسری وجہ سے مال خرچ کر دیتا ہے۔[2] چونکہ سابقہ تعریف میں نیت معتبر ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَ اِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیئٍ مَّا نَوٰی)) [3]
[1] الاخلاق الفاضلۃ للدکتور عبداللہ بن ضیف اللہ اصیلی۔ اس نے اس تعریف کو جرجانی کی طرف منسوب کیا۔ [2] الاخلاق الفاضلۃ للدکتور عبداللہ بن ضیف اللہ اصیلی۔ نقلاً عن التعریفات للجرجانی۔ [3] صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب العمل بالنیۃ، ج ۱، ص: ۲۔ صحیح مسلم:، کتاب الامارۃ، ج ۴، ص: ۱۰۹۱۷۔